اردوئے معلیٰ

Search
قوالی کا رنگ ، امیر خسرو سے سید فخرالدین بلے تک
قوالی کی تاریخ سید فخرالدین بلے کےقول ترانے اور ان کے خوبصورت "رنگ” کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے اور ادھوری رہے گی۔بڑے بڑے علماء، مشائخ ، ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں نے امیر خسرو کے سات سو سال بعد تخلیق کئے گئے سید فخرالدین بلے کے "رنگ” کو تخلیقی معجزہ ،قابل ِ ستائش کارنامہ اور جہان ِ معنی سے بھرپور شاہکار قرار دیا ہے ۔احمد ندیم قاسمی کہتے تھے کہ سید فخرالدین بلے اپنے لئے ہمیشہ مشکل راستے کاانتخاب کیاکرتے تھے اور اس پر چل کران مٹ نقوش چھوڑکرتیزی کے ساتھ آگے بڑھ جاتے تھے۔ ان کا نیارنگ دیکھ کر میں ہی نہیں، اہل ِ معرفت بھی دنگ نظرآتے ہیں۔علامہ طالب جوہری نے کہا تھا کہ سید فخرالدین بلے نے نیا رنگ تخلیق کرکے اپنی فکر کاکینوس آسمان کی طرح دور دور تک پھیلادیاہے۔محسن نقوی یہ "رنگ "سن کردیر تک سر دُھنتے رہےاور کہابلے صاحب خودنمائی سے گریزاں نہ ہوتے تو آج یہ رنگ قوالی کی محفلوں کی جان ہوتا۔معروف عالم ِ دین غزالی ء زماں، رازی ء دوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا سید فخرالدین بلے نےنیارنگ دے کر تصوف کی دنیا میں ہلچل مچادی ہے۔علامہ سید نصیرالاجتہادی بولے سید فخرالدین بلے کاقول ترانہ ہو یا ان کا خوبصورت رنگ،قوالی کی تاریخ ان دونوں کے ذکر ِ خیر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔بات ہورہی ہے سید فخرالدین بلے کے "رنگ” کی ۔ یہ شعری رنگ نہیں بلکہ اس کے کچھ اور ہی معانی ہیں۔اس رنگ سے کیا مراد ہے؟ رنگ کسے کہتے ہیں ؟یہ جاننے کے لئے ہمیں قوالی کی تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑے گی۔
قوالی کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔جنوبی ایشیاء خصوصاً متحدہ بھارت میں اس صنف کو متعارف کرانے کاسہرا بلاشبہ مفتاح السماع حضرت امیر خسرو کے سر ہے۔جو محبوب ِ الہیٰ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ِ خاص تھے۔قوالی کالفظ "قول” سے نکلا ہے اور قول سے مرادمحض قول نہیں ،مدینۃ العلم و حکمت نبی ء آخرلزماں حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاایک خاص قول ہے۔جو حجۃ الکمال یعنی حجۃ الوداع سے واپسی پر خم ِ غدیر کے مقام پر دئیے گئے تاریخی خطبے میں شامل ہے ۔یہ قول ِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا ہے؟یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں لیکن اسے دُہرانے کی ضرورت ضرور ہے۔پڑھئے ۔یہ خاص قول ِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ ّ آلہ وسلم ہے
من کنت مولاہ فعلی مولاہ، ومن کنت مولاہ فھٰذا علی مولا
اس قول سے پہلے عالم ِ اسلام میں قوالی کاکوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی اہل ِ علم و ادب قوالی کےلفظ سے آشنا تھے۔من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی بازگشت گنبد ِ جہاں میں گونجی تویہی قول ِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ ّ آلہ وسلم قوالی کی بنیاد بن گیا۔اولیاء اللہ اور صوفیاء کے حلقوں میں
من کنت مولاہ ، فعلی مولا اور من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کاورد تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہونے لگا۔نبی ء رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور خم ِغدیر کے مقام پر ان کی طرف سے حضرت علی المرتضیٰ کرام اللہ تعالی ٰ وجہہ الکریم کی ولایت کے اعلان کے سات سو سال بعد چشتیہ سلسلہ ء عالیہ کے عظیم روحانی پیشواحضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے خلیفہ ء خاص حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر ان کے مرید ِ خاص حضرت امیر خسرو نے دین کی تبیلغ و تشہیر اور مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی ٰ وجہہ الکریم کے فضائل و مناقب کی جھلکیاں دنیا کو دکھانے کیلئے گائیکی ،موسیقی اور شاعری کے ملاپ سے ایک بالکل نئی صنف "قوالی” کی بنیا رکھی۔جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار و روایات کی ترویج و ترقی کے نئے دربھی واہوتے چلے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : من کنت مولا ، سید فخرالدین بلے کا سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ
——
قوالی کی ہر محفل "قول ترانے” سے شروع ہوتی ہے اور قوالی کی ہر محفل” رنگ” پر ختم ہوتی ہے۔امیر خسرو کو دنیا سے رخصت ہوئے سات سو سے زیادہ سال بیت چکے ہیں ۔ان سات صدیوں میں بڑے بڑے شاعر سامنے آئے اور انہوں نے اپنی شاعرانہ عظمت و جلالت کا لوہا بھی دنیا سے منوایا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان بڑے بڑےشاعروں میں سے کسی ایک نے بھی نیا قول ترانہ اور قوالی کے آخر میں پیش کیا جانے والا "نیارنگ "تخلیق کرنے کی جسارت نہیں کی ۔ یہ اعزاز سید فخرالدین بلے کامقدر بنا۔انہوں نے نیا قول ترانہ تخلیق کرنے کے بعد نیا رنگ بھی لکھا۔سید فخرالدین بلے کے قول ترانے اور ان کے "رنگ” کی دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیار کیں۔سیدفخرالدین بلے کے قول ترانے پر بھارت، عراق، ایران اورپاکستان سمیت کئی ملکوں میں بہت علمی اور تحقیقی کام ہواہے۔عالمی اخبار میں اس کی جھلکیاں بھی وقتاً فوقتاً پیش کی جاتی رہی ہیں ۔ آج ہم ان کے قول ترانے پر نہیں بلکہ سید فخرالدین بلے کے” رنگ” پر چند مضامین شامل ِ اشاعت کررہے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ انہوں نے کتنا بڑا اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے ۔یہ تمام مضامین اُس کتاب میں شامل ہیں ،جسے نامور ادبی اور سیاسی شخصیت سیدتابش الوری نے "سید فخرالدین بلے۔ ایک داستان ۔ ایک دبستان ” کےزیر ِ عنوان ترتیب دیاہے ۔اس باب میں بہت کچھ شامل ہے لیکن ہم یہاں صرف چند مضامین پر ہی اکتفاکریں گے اور پہلا مضمون ریڈیوپاکستان ملتان کے سینئیر پروڈیوسر،شاعر، ادیب، مترجم اور سرمد ایک سمندر کے مصنف محمد انور معین زبیری مرحوم و مغفور کادیکھئے۔یہ مضمون نہیں ان کی کتاب کااقتباس ہے ۔وہ ایک کتاب لکھ رہے تھے ۔”قوالی ۔ امیرخسرو سے سید فخرالدین بلے تک”ابھی اس کتاب کی تدوین و تالیف کاکام جاری تھا کہ محمد انور معین زبیری کابلاوااللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آگیا اور یہ کتاب منظرعام پر نہیں آسکی۔دوسرا مضمون ڈاکٹراسلم انصاری کاہے۔ تیسرامضمون احمد رئیس چشتی کی تحریر ہے ،جوسید فخرالدین بلےکارنگ دیکھے بغیر اس پر تبصرہ توکرگئے لیکن جب ان کی نظرسے سید فخرالدین بلے کارنگ گزرا تو انہیں اپنے کہے پر بڑاافسوس ہوا اور انہوں نے ایک الگ مضمون لکھ کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔یہ مضمون نوائے وقت کراچی کے ادبی ایڈیشن کی زینت بناتھا اور وہیں سے لیاگیاہے۔ ان تمام مضامین کے آخر میں وہ تاریخ ساز رنگ بھی دیا گیا ہے جو امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے نے لکھ کرادبی اور روحانی دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا { ادارہ }
——
سید فخرالدین بلے کا نیا رنگ از محمد انور معین زبیری
——
{یہ مضمون محمد انور معین زبیری کی کتاب "قوالی ۔ امیرخسروسے سید فخرالدین بلے تک” سے ماخوذ ہے}
کاروانِ انسانیت ابتدائے آفرینش سے رواں دواں ہے اور جب تک یہ دنیا اپنی قبائے رنگیں میں جلوہ گر ہے ،شیرازہ ءآب و گل یونہی بنتا ،سنورتا اور پھر بگڑتا رہے گا۔ لوگ آتے اور جاتے رہیں گے ۔کن فیکون کا پیمانہ گردش میں رہے گا ۔اس لیے کہ ہست و نیست، وجود وعدم اور بقا و فنا کا مرحلہ قسامِ ازل نے ہر ذات اور ہر شے کے لیے مقدر فرما دیا ہے۔ اس سے مفرکہاں؟۔ مگر بعض ہستیاں ایسی بھی گزری ہیں ،جنہوں نے اپنے علم و عمل سے فکر و شعور کی ایسی شمعیں فروزاں کی ہیں ،جو قندیل آسمانی کی طرح اپنی روشنیءجہانتاب سے دنیا کو اپنے چلے جانے کے بعد منور کیے ہوئے ہیں ۔جنوں نے اپنے منفرد اندازِ نگارش سے اپنی انشائے لطیف سے‘ اوراپنے حیران کن شعری ذوق سے قبائے علم و ہنر کو کچھ اس طرح زیب تن کیا کہ وہ سب کچھ جوان کا حاصلِ جستجو اور مرکزِ آرزو تھا ،انتہائی چابکدستی سے قارئین کو مسحور کر گیا۔ انہوں نے علم و ادب کے اس بے کنار سمندر کو اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں کس طرح کشید کر لیا ۔یہ ایک حیران کن تجربہ ہے۔
اندیشہ ہائے دور ودراز ہوں کہ اندیشہ ہائے قریب و قریں ،جب وہ کسی بھی صاحب ِخیر و خبر اہلِ علم و ہنر کی گرفت میں آ جاتے ہیں تو امر بن جاتے ہیں۔
——
کسی جبیں پہ شکن آئے،کوئی برہم ہو
زبانِ خلق پہ جو کچھ ہے وہ، سُناتا جا
——
وہ یاسیت کے شاعر نہیں اور لگتا ہے کہ وہ انگریزی شاعری کے اس قول سے بھی متفق نہیں کہ "ہمارے شیریں ترین نغمات وہ ہیں جو غم و اندوہ کے مظہر ہیں”۔ وہ قلم کو جبر کے خلاف ایک موثر طاقت سمجھتے ہوئے اس کے دانشورانہ اور فنکارانہ استعمال پر قادر ہیں۔
——
ظلمتِ شب میں بھی جو صبح کے امکاں دیکھے
اس کا ایماں کوئی دیکھے، کوئی ایقاں دیکھے
——
وہ اپنے قاری کے لیے نئی دنیا تشکیل دیتے ہیں اور سوچنے والوں کے لیے فکر و خیال کے نئے دریچے واکرتے ہیں تاہم ان کی شاعری مقدار میں کم ہونے کے باوجود ابلاغ ِ افکار کا موثر وسیلہ ثابت ہوئی۔ ان کے کلام میں روانی کے علاوہ تجربہ بھی بولتا ہے۔ وہ عام روش سے ہٹ کر شعر کہتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی ناہمواری ،سیاسی افراتفری اور تمام منفی اثرات سے بالاتر ہو کر تعمیری سوچ اور مثبت طرزِ فکرکے مالک ہیں۔ ان کے مطابق زندگی کے حقائق عمل کے متقاضی ہیں۔ اخلاقیات کی پاسداری ان کا شیوہ رہا ۔جس کی تبلیغ اپنے کلام میں جابجا کرتے نظر آتے ہیں۔ دینوی و اخروی مسائل سے نجات کا ذریعہ عشق ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور محبتِ اہلِ بیتِ اطہار کو سمجھتے ہیں۔
اب مجھے یہاں یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ تحریر کردہ مندرجہ بالاسطور میں جن خصوصیات و حقائق کا اظہار کیا گیا ہے ،اس کے حامل ملتان ِذیشان کی عظمتوں کے نقیب، پہلو دار شخصیت، ادیب و شاعر، صحافی، مقرر، مولف، تخلیق کار، دانشور اور صوفی صافی دل گویا کہ اپنی ذات میں انجمن ہونے کے حوالے سے ایک بے پناہ ہمہ گیر‘ انتہائی چیدہ اور چنیدہ شخصیت سید فخر الدین بلے مرحوم و مغفور ہیں۔ ان کی علمی فتوحات کے حضور خاموش خراجِ تحسین ہی پیش کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ہم جیسوں کی لب کشائی سے بات کے سنورنے کی بجائے بگڑ جانے کا خطرہ ہے۔ ان کے عشقِ کتابی نے اس وحشت آباد ویرانے کو ایک روح پرور اور فردوسِ نظر علمی دبستان میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی نہ تھے بلکہ ایک ادارہ بھی تھے۔ ایک متحرک کتب خانہ تھے۔ انہوں نے انجمن سازی بھی کی ۔ادارے بھی ترتیب دیئے اور ادبی پڑاﺅ کے ذریعے شعری تحریک کا سبب بھی بنے اور یہ ادبی پڑاﺅ بھی ایک ذریعہ بن گیا ،اس نئی نسل کی شعری تربیت کا۔
علی گڑھ جیسے عظیم دارالتربیت اور دارالتعلیم کے بعد انہوں نے تجربے کے مدرسے میں طبیعت کے مکتب میں ،پیرِ خرد افروز کے سامنے، فکر کے صحیفے سے بہت کچھ سیکھا۔ بہت دنیا دیکھی ۔اس سیر دنیا میں سیر الللہ بھی ہوئی ۔دل و دماغ کو روشنی بھی ملی ۔صحیح عقیدے کا تحفہ بھی نصیب میں آیا ۔اہلِ درد اور اہلِ حال صوفیا سے معرفتِ قلب ،اہلِ نظر سے معرفتِ نظر اور اہلِ عشق سے گداز عشق میسر آیا۔ پھر سید فخر الدین بلے کی شخصیت کی تکمیل ہوئی۔ کون جانے کس گدڑی میں کونسا لعل ہے ؟کس کان میں کونسا گوہر ِنایاب ہے ؟کس عقل کو کتنی
فراست عطا کی گئی ہے اور کس دل کو شورِ رومی اور سوز ِخسرو سے نوازا گیا ہے۔ جب انسان کو تصوف کی موشگافیوں کی توفیقِ ارزانی ہوتی ہے تو جب ہی ُگل سرسبد کی خوشبو سے ایک عالم مستفیض ہوتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخرِعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی , سید فخرالدین بَلے علیگ
——
سید فخر الدین بلے کو بحرِ معرفت سے "رنگ ” اور "قول” کا گوہر ِ آبدار عطا ہوا۔ انہوں نے حضرت امیر خسرو رحمة اللہ علیہ کی تخلیق قوالی کے آخر میں جو رنگ گایا جاتا ہے ،اس کی تجدید اور اس میں اضافہ کا کارنامہ سرانجام دیا ۔بقول معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری‘ فخر الدین بلے صاحب نے سات صدیوں کے بعد نیا رنگ دے کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اور بقول غزائی زماں رازی ءدوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ”قول کی جو نئی تصریحی تہذیب سید فخر الدین بلے نے فرمائی ہے ،وہ ان کی علمی قابلیت، روحانی ذوق بالخصوص بارگاہ ِسیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے کمال محبت کی آئینہ دار ہے۔ قول کی تصریحی اور صوتی تہذیب کا جو کام حضرت نظام الدین اولیاءنے حضرت امیر خسرو کے سپرد فرمایا تھا،بلے صاحب کی یہ نئی تصریحی تہذیب اسی کا تکملہ نظر آتی ہے”۔ ان کایہ کارنامہ بلاشبہ قابل ِداد اور موجب ِ ستائش ہے۔ پیر حسام الدین راشدی ،این میری شمل اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے اپنے دور کے محققین حضرات نے بھی بلے صاحب کے تصوف کے حوالے سے انوکھے انداز میں اس تحقیقی کام پر انہیں تصوف پر اہم اتھارٹی قرار دیا ہے۔ رنگ کا نمونہ دیکھئے۔
——
سات زمینیں ،سات فلک، ہیں سات دھنک کے رنگ
سات سُروں کی سنگیتا ہے، سرگم ہفت آہنگ
سا۔رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ دھا۔ پا۔ ما۔گا۔ نی۔ سا۔رنگ
لکھ چوبیس ہزار سجیلے لے کر آئے رنگ
رنگینی پر مہاراج کو رب نے دی فرہنگ
اک دروازہ سات جھروکے، مولا ہفت اورنگ
ایک علامت مرکز کی چھ سمتوں کے سرہنگ
——
سات سو سال سے قوالی کی محفلوں میں حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کا مقبول عام "قول ترانہ” اور رنگ گایا جا رہا ہے۔ قوالی کا لفظ قول ِ امام الانبیاءمحبوبِ رب العالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول سے مشتق ہے۔”من کنت مولیٰ فعلی مولا” سید فخر الدین بلے نے اس قول کی جو تصریح کی ہے، اس کا نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
——
اللہ تو واللہ ” ھو اللہ احد ” ہے
وہ قادرِ مطلق ہے، وہ خالق ہے، صمد ہے
احمد میں اِدھر ”میم “ اُدھر ”منی ومنہ “
اک پردہ ءاِدراک ہے، اِک عقل کی حد ہے
——
انہوں نے قول کی تصریح بھی کی ہے۔ تہذیب بھی کی ہے اور تضمین بھی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید نصیر الدین نصیر آف گولڑ ہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے کتنی اچھوتی داد دی ہے۔ بیشک اہلِ علم و دانش کے فرمودات بھی عام گفتگو نہیں ہوتے ۔پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا”حضرت امیر خسرو کے بعد قول ترانے کی تخلیق کا اعزاز دوسری بار ملتان کا مقدر بنا ہے کہ حضرت امیر خسرو نے بھی یہ کارنامہ ملتان ہی میں انجام دیا تھا”۔ 1976 میں وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی اسلام آباد کی ایک محفل میں سید فخر الدین بلے کا یہ قول اور رنگ سن کر ششدر رہ گئے اور کہا کہ بلے صاحب کی شخصیت کا یہ رخ میرے سامنے آج آیا ہے۔ ذرا نمونہ بھی دیکھتے چلیں کہ سید فخر الدین بلے نے کس سلیقے اور کس کاوش ِروحانی کے ذریعے قول کی تصریح کی ہے۔
——
معراجِ ِ نبی برحق، معراجِ ِ علی برحق
ہے کعبہءمولا میں بردوشِ نبی مولا
——
من کنت مولا ہ ،فعلی مولا ، من کنت مولا ، فھٰذا علی مولا
——
اقرار کُنم بلے من بندۂ مولائی
اللہ و نبی مولا ،و اللہ علی مولا
من کنت مولا ، فعلی مولا
من کنت مولاہ فھٰذا علی مولا
——
اس قول پر جو داد حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ نے بے ساختگی کے ساتھ دی تھی ،وہ قابل توجہ ہے۔
”سبحان اللہ سبحان اللہ۔ بلے بلے۔ بلاشبہ بلے صاحب کا یہ قول قابلِ تحسین و آفرین بھی ہے اور موجبِ صد ستائش تاریخی کارنامہ بھی "۔
بلاشبہ سید فخر الدین بلے نے جو حضرت خواجہ غریب نواز ،خواجہ بزرگ اجمیری ،خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔ انہوں نے خانوادہء چشتیہ کی روایات میں بہت خوب اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے صوفیانہ شاعری پر توجہ دی تو اس کمال تک پہنچے۔
——
دیکھن میں تو ہر ڈھولے کا الگ الگ ہے انگ۔
رنگ الگ، آہنگ الگ اور الگ الگ ہیں ڈھنگ۔
آﺅ سکھیو مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ۔
——
اس کلام کی موسیقیت عقل و خرد کو کیسے باطنی سرور سے سرشار کرتی ہے۔ ایک روحانی کیف ہے، جو سرتال سے نشاطِ قلب و نظر بن جاتا ہے۔ریڈیوپاکستان ملتان نے بلے صاحب کے اس نئے قول ترانے اورسات صدیوں بعد تخلیق کئے گئے رنگ کی کئی دُھنیں بنانے کااعزاز حاصل کیا۔اسٹیشن ڈائریکٹر حمید اصغر نے اس کام میں ذاتی دلچسپی لی۔محمودغازی کی نگرانی میں یہ کام ہوا اور ہوا کے دوش پر اس کلام کی صدائیں دور دور تک پہنچیں۔
برصغیر پاک و ہند میں قوالی کے بانی حضرت امیر خسرو ہیں ۔انہی کا قول ترانہ اور رنگ قوالی کی محفلوں میں پڑھاجاتاہے۔امیر خسرو کے بعد قول کی تصریحی تہذیب کسی شاعر نے نہیںکی ۔یہ اعزاز سید فخرالدین بلے کے حصے میں آیا۔
میں قوالی کے تاریخی پس منظر میں ” امیر خسرو سے سید فخرالدین بلے تک ” ایک تحقیقی کتاب لکھ رہاہوں ۔کچھ کام باقی ہے،دعافرمائیں کہ میں اپنے اس خواب کی تعبیر جلد اپنی آنکھوں سے دیکھوں ۔
شاعری کا کمال اگرچہ فکرِ عمیق اور معانیءدقیق میں ہے مگر اندازِ بیاں کی جدتِ اظہار اور ندرت ِاحساس نہ ہو تو ایسی شاعری مقبول و معتبر نہیں ہو سکتی۔ شاعر کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کی سوچ اور پسندو ناپسند سے آگہی رکھتا ہو کیونکہ یہ امر تخلیقی عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ جناب طفیل ہوشیار پوری نے لکھا ہے کہ سید فخر الدین بلے کی زندگی کی بھرپور تصویر اس شعر میں مصور ہو گئی ہے۔
——
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعرو ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
——
ان کی ایک نظم "بازیافت” میں دیکھئے جس میں وہ اپنی تمناؤں کا کس چونکا دینے والے انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔
——
حرا سے نسبت یہ چاہتی ہے
کہ بابِ حکمت پہ بیٹھ جاؤں
اُدھر سے کوئی پیام آئے
پیام روح الامین لائے
اور اس کے ذریعے
میں اپنے اشکوں کے جام بھیجوں
سلام بھیجوں
اور اس سے پہلے کہ خوں چکیدہ سحر کو دیکھوں
حجاب اُٹھے
میں خود کو دیکھوں ۔۔۔۔ میں خود کو جانوں
میں خود کو پرکھوں
میں خود کو سوچوں
میں خود کو لکھوں
میں خود کو ڈھونڈوں
میں خود کو پاؤں
——
{یہ تھا سید فخرالدین بلے کی ایک نظم بازیافت سے ماخوذ ایک اقتباس}
——
سید فخرالدین بلے اس مٹی کا قرض چکانے کے لیے بھی کتنے فکر مند رہے ہیں
——
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جا کر اس مٹی کا قرض
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ , سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ
——
ایک اور غزل کے دو شعر دیکھئے، جومیرے ان دعووں کی تائید میں ہیں۔ جو میں نے بلے صاحب کے کلام سے متعلق کیے ہیں
——
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لیے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
——
یہ شاعری کی نئی جہتیں ہیں۔ نئے مفاہیم ہیں جو ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتے۔
سید فخر الدین بلے نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا عرصہ ملتان میں بسر کیا اور اپنے کلام کے ذریعے ملتان کی رہائش کا حق بھی ادا کیا۔ ان کی نظم”ملتان ِ ما” میں الفاظ کا چناﺅ، تراکیب کااستعمال اور شاعری کا کمال ملاحظہ فرمائیے۔ چند اشعار
——
تاریخ سے پہلے کے زمانوں میں بھی ملتاں
تھا زندہ و رخشندہ و تہذیب بداماں
دنیا کے ہنر مند و سلاطینِ زمانہ
صدیوں رہے اس شہر کے منتِ کشِ احساں
جو اس کی قدامت پہ جھگڑتے ہیں ،وہ سن لیں
رگ وید ہے اس شہر کی تہذیب پہ نازاں
اور اس کی جلالت کا یہ عالم تھا کہ لاہور
تھا عہد میں ہجویری کے اک قریہءملتاں
ولیوں کا مدینہ اسے کہتے ہیں کہ یہ شہر
ہے جلوہ گہہِ منزلتِ خاکِ نشیناں
——
سید فخر الدین بلے نے جدید شاعری کی صنف "ہائیکو” میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ فرماتے ہیں۔
——
اُس نے پوچھا علوم کتنے ہیں
میں نے بھی اس سے یہ سوال کیا
آسماں پر نجوم کتنے ہیں
——
دیکھا آپ نے کتنا منفرد انداز ہے۔ بات کہنے کا کیا انوکھا سلیقہ ہے۔ سید فخرالدین بلے کا۔ ایک قطعہ ہے۔
——
اپنے احساس کو معکوس نہ ہونے دوں گا
فکر کو شعر میں ملبوس نہ ہونے دوں گا
مجھ پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے مِری جانِ وفا
انتقاماً تجھے محسوس نہ ہونے دونگا
——
اس قسم کی قادرالکلامی کے مظاہر ان کے کلام بلاغت نظام میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل شعر نے تو جوش ملیح آبادی جیسے عظیم شاعر کو بھی چونکا دیا تھا اور جوش صاحب نے فرمائش کر کے یہ شعر بار بار سنا۔
——
اپنی کتابِ زیست پہ تنقید کے لیے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاﺅنگا
——
جناب سید فخرالدین بلے کی اس سے بڑی انفرادیت اور کیا ہوگی کہ انہوں نے علی گڑھ کی تربیت گاہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے مولانا حسرت موہانی رحمتہ اللہ علیہ جیسے عظیم غزل گو اور جوش جیسے جسیم نظم گو کے ساتھ اور دیگر مشاہیر شعراء کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ انگریزی ، اردو ، فارسی اور ہندی پر یکساں عبوررکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری میں جدت پیدا کی اور جدیدیت کو رواج دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ۔ فراق گور کھپوری ۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد ۔ رشید احمد صدیقی۔ حضرت جگر مراد آبادی۔ علامہ خیر بھوروی ۔ جوش ملیح آبادی ۔ آل احمد سرور، محمد علی صدیقی ، کمال احمد رضوی ، جمیل الدین عالی ، افتخار احمد، انتظار حسین اور مصطفی زیدی دنیائے علم و ادب کے بڑے نام ہیں ۔ یہ وہ چیدہ اور چنیدہ شخصیات ہیں ، جنہوں نے سید فخرالدین بلے کے کام ، ان کے کلام اور ان کی نثری تخلیقات پر اپنی اپنی پسندیدگی کے ساتھ حیرت کا بھی اظہار کیا ہے ۔اس امر پر کہ اپنی دفتری اور نجی مصروفیات یعنی محکمہ تعلقات عامہ و اطلاعات کی رات دن کی سرگرمیوں کے باوجودعلمی ، ادبی اورتحقیقی کاموں کے لیے واقعی وہ پچیسواں گھنٹہ نکال ہی لیتے تھے۔ ملتان میں پچیس روزہ جشن تمثیل جیسا انفرادی کارنامہ سید فخرالدین بلے ہی کر سکتے تھے ۔جس پر آج تک اہلِ فن حیرت زدہ ہیں ۔وہ ایک کثیر الجہت شخصیت اور علم و ادب کی آبرو کئی حوالوں سے تھے۔ صحافت و ثقافت کے فروغ اور فنون ِ لطیفہ کی آبیاری کے حوالے سے ان کی زندگی کا ہر پہلو بہت دلچسپ، وقیع، سرفراز اور سربلند رہا ہے۔
اس خود غرضی اور بدنیتی کے دور میں جو متعصبانہ رویئے ہیں اور جو منافقانہ تعلق کارنگ ہے ۔اس پر ان کا تبصرہ ایک چھوٹی بحر کے شعر میں دیکھئے ۔کیا کمال کیا ہے۔
——
ہم نے اے دوست خود کشی کے لیے
آستینوں میں سانپ پالے ہیں
——
اور جب بلے صاحب کے قلبِ رقیق کو عشق ِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تپش نے جلا بخشی تو اس بحرِ ناپیدا کنار کی موجوں کی نذر ہو کر رہ گئے اور پتا نہیں کس عالم ِ تحیر میں کیا انوکھی لغت کہہ گئے ہیں اور کس توجیہہ کے ساتھ۔
——
ہے خوفِ خدا! اُن کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
اِلاّ کو اگر لا سے جدا کہہ نہیں سکتے
حق بات بہ انداز ِ ثنا کہہ نہیں سکتے
الفاظ جھجکتے ہیں، لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صَلِّ علیٰ کہہ نہیں سکتے
——
سید فخر الدین بلے بہت خوش لباس ،خوش گفتار اور محبتوں کے سفیر تھے۔ اپنی بے پناہ شفقتوں سے ایک عالم کو اسیر کر گئے ۔ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہو کر انسانیت کے درد کا درس دے گئے ہم جیسے لوگ ان کے بچوں کی طرح تھے۔ اب ان کے دست ِشفقت کے لمس سے محرومی اکثردکھی کر دیتی ہے ۔ان کی یادگار مودت ومحبت ۔۔۔۔ اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ جو شخص علم و ادب،شعور و معرفت، صحافت و ثقافت، شعر و ادب کو اتنا کچھ دے گیا مگر اپنے لیے ایک مکان بھی مہیا نہ کر سکا۔ عمر خیام نے کہا تھا۔
——
آناں کہ محیط فضل و آداب شدند
در جمع کمال شمع اصحاب شدند
رہ زیں شب تاریک نبردند بہ روز
گفتند فسانہ ای و در خواب شدند
——
یعنی وہ لوگ جو تمام علوم سے آشنا ہوئے اور حقیقت میں علم و فضل کی منازل کو طے کیا اور عام لوگوں کے درمیان شمع کی مانند رہے، انہیں روشنی مہیا کرتے رہے اور انہیں درس ِ محبت دیتے رہے۔ پھر بھی اس دنیا سے اپنی تمام تاریک شب کے لیے دن کی روشنی حاصل نہ کر
سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمر خیام کی یہ رباعی محترم و مکرم بلے صاحب پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
اس مضمون کا اختتام بلے صاحب ہی کے ایک لافانی شعر پر کرتا ہوں۔
——
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
——
یہ بھی پڑھیں : کتاب کا مقدمہ ” ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں”۔
——
محسن نقوی رنگ دیکھ کر رہ گئے دنگ
——
محمد انورمعین زبیری کا شاندار مضمون توآپ نے ملاحظہ فرما لیا۔ نامور شاعر،ادیب ، دانشوراور ذاکر محسن نقوی بھی سید فخرالدین بلے کا یہ رنگ سُن کر دنگ رہ گئے تھے ۔ بہت دیر اس کے سحر سے باہر نہیں آسکے اور پھر ان کی زبان سے سید فخرالدین بلے کے اس رنگ کے یہ مصرعے جاری ہوئے
——
لکھ چوبیس ہزار سَجیلے لے کے آئے رنگ
رنگینی پر مَہاراج کو رَب نے دی فرہنگ
اکِ دروازہ سات جھروکے مولا ہفت اورنگ
ایک علامت مرکز کی ، چھ سمتوں کے سرہنگ
حَسنین و َسلمان و بوذر،حَسن ، اَویس، کمیل
ایک علامت مرکز کی ، چھ سمتوں کے سرہنگ
سات زمینیں، سات فلک ، ہیں سات دَھنک کے رنگ
سرَگم ہفت آہنگ ، مولا ہفت اورنگ
آوٴ سَکھیو! مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ
——
کہنے لگےیہ ایسا رنگ ہے،جس میں حمد، نعت ، منقبت اورسلام ایک رنگ میں رنگے ہوئے محسوس ہورہے ہیں ۔ ذراغور تو کیجئے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے جو پیغام دیا اور اس کے بعد نبی ء رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کواللہ تبارک و تعالی ٰ نے اُم الکتاب کی صورت میں اپنا جوآخری کلام دیا،محض ان ہی کےبلیغ اشارےاس رنگ میں نہیں ملتے بلکہ سید فخرالدین بلے نے ولایت پناہ حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام کے تمام ساتوں خلفائے کرام کے اوصاف ِ حمیدہ کوبھی بڑی عقیدت اور مودت کے ساتھ اپنے رنگ میں شامل کرلیا ہے ۔امیرخسرو رحمۃ اللہ علیہ کے رنگ میں خواجگان ِ چشت کااحاطہ کیاگیا تھا لیکن انہوں نے اس رنگ میں زمینوں، آسمانوں اور دھنک کے تمام رنگوں کواپنے رنگ کی بنیاد بنایا ہے۔ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام کےزیرعنوان سید فخرالدین بلے نے جو تحقیقی اور تخلیقی کتاب لکھی ہے،اس سے بھی یہی پتاچلتا ہے کہ ولایت کے تمام روحانی سلاسل مولائے کائنات ہی کی ذات ِ بابرکات پر منتہی ہوتے ہیں اور اس” رنگ” میں سیدفخرالدین بلے شاہ صاحب کی آفاقی سوچ کی جھلک بھی موجود ہے۔
محسن نقوی صاحب کی اس مختصر سی رائے کے بعد اب آپ ملاحظہ فرمائیے ،پروفیسر ڈاکٹراسلم انصاری کامضمون ، جس کاعنوان ہے سات صدیوں کے بعد رنگ ۔ سیدفخرالدین بلے کاتخلیقی معجزہ ۔اس مضمون میں انہوں نے اُن تمام بلیغ اشاروں کی توضیح و تشریح بھی فرمائی ہے ،جو اس رنگ میں دامن ِ دل کو کھینچتے محسوس ہوتے ہیں
——
سات صدیوں کے بعد رنگ ۔ سیّد فخرالدین بَلّے کا تخلیقی معجزہ
تحریر: پروفیسر ڈاکٹراسلم انصاری
——
نزاکت ہا الست در آغوشِ مینا خانہحیرت
مژہ برہم مزن تا شکنی رنگِ تماشا را
——
عالم…. اگر مینا خانہءحیرت ہے تو پھراس کا ہر منظر رنگِ تماشا کا منظر ہے۔ جس کا حسن مشاہدے کے تواتر کا تقاضا کرتا ہے۔ دنیا کو عالمِ رنگ و بو اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہاں بے رنگی نے نیرنگی میں ظہور کیا ہے۔ نور و ظلمت اس نیرنگی کے ظہور و خفا کے پیمانے ہیں۔ رنگ، موجودات کا لازمی مقولہکیف ہے۔ یہاں جو بھی چیز ہے کسی نہ کسی رنگ میں نمودار ہے۔ یہاں تک کہ کائناتی فاصلے بھی۔ جو اپنی ماہیت میں محض بے رنگ ہیں۔ نیلگوں صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ غور کیجئے تو نفس ِ انسانی کا رنگوں کے ساتھ گہرا رابطہ نظر آئے گا۔ رنگوں سے صرف ہمارے حواس ِتابانی نہیں ہمارے احساسات و جذبات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تصور میں سالک کو واردات کے مختلف مراحل میں مختلف رنگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مذاہب اور تہذیبوں میں بھی رنگ اپنی علاماتی معنویت کے ساتھ رونما ہوتے ہیں۔ بعض رسموں میں بعض رنگ،لباس اور حواس کے راستے محسوسات کی ایک نئی دنیا آباد کرتے ہیں۔ رنگ گو سات ہیں لیکن ان کی ترکیبی صورتیں لا متناہی ہیں اور عجب یہ کہ ان سب کا سر چشمہ اور مرجع ایک ہی موجِ ِنور ہے۔ جو بے رنگی میں رنگین اور رنگینی میں بے رنگ ہے۔
شاعری میں رنگ کے تصورات کو جو اہمیت حاصل ہے۔ اس کا تذکرہ تفصیل چاہتا ہے۔ مذہبی ،صوفیانہ اور عوامی شاعری میں رنگ علامت اور استعارے کے طور پر لا محدود معنویت کے حامل ہیں۔ حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ جو مختلف تہذیبی اور ثقافتی عناصر کے تال میل سے تخلیقی فنون میں معجزات دکھانے کے فن میں یکتا تھے۔ رنگ کے مفاہیم سے غیر معمولی آگاہی رکھتے تھے۔ قوالی کے طریق و ظواہر میں انہوں نے "رنگ” کو آخری مقام دیا۔ گذشتہ کئی سو سال سے قوالی کے آخر میں ایک رنگ گایا جاتا ہے۔بلاشبہ یہ حضرت امیر خسرو ؒ ہی کا لکھا ہوا رنگ گایا جاتا ہے۔ فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ایجاد و اختراع اور تجدید و اضافہ کا دروازہ۔ باب ِاجابت۔ کی طرح ہمیشہ وا رہتا ہے۔ لیکن۔ انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد ۔ تجدید و اضافہ تو دور کی بات ہے۔ روایات کا تحفظ بھی بعض صورتوں میں بجائے خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہوتا ہے۔
میر ے مکرم سید فخر الدین بلے نے سات صدیوں کے بعد نیا رنگ لکھ کر نہ صرف رنگ کی روایات کا تحفظ کیا ہے بلکہ اس کو آگے بھی بڑھایا ہے۔ ان کا رنگ ۔رنگ اور اعداد کی ۔علاماتی معنویت کی تشریح بھی کرتا ہے اور مسالکِ صوفیاءمیں سے بیشتر کے مرکزی تصورات کی توضیح بھی۔ ان کی عددی علامت سات ہے ۔ سات زمینیں ہیں ۔ سات آسمان ۔ دھنک کے سات رنگ اور موسیقی کے سات سُر۔ جوان کے خیال میں عالم کا ہفت آہنگ سرگرم مرتب کرتے ہیں۔ انبیاءعلیہم السلام کی تعداد روایات میں ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے لیکن سرور انبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ ِقدس سے جو فضیلت حاصل ہوئی۔ اس میں ان کا کوئی نظیر نہیں۔”انا مدینتہ العلم ” کی حدیث کی رو سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ مدینتہ العلم کے بابِ ہفت خرفہ ہیں۔ جس سے مراد ان کے سات خلفاءیعنی حضرت امام حسن ، حضرت امام حسینؓ ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ ، حضرت حسن بصریؓ ، حضرت اویس قرنی ؓاور حضرت کمیل ؓبن زیاد ہیں۔ ان ساتوں میں سے ایک مرکز (امامت) کی علامت ہیں اور باقی چھ شش جہاں کےلئے نورِ ولایت ہیں ۔اسی عددی علامت کی تشریح کے بعد بلے صاحب نے”دیکھن میں تو ہر ڈھولے کا الگ الگ ہے انگ” کہہ کر تصوف کے سلسلوں کی انفرادی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے اور پھر حواسِ تابانی کی رو سے نور کے ظہور و خفا میں تناسب و تنزیل کے اصولوں کو اجاگر کیا ہے۔ شاہد کےلئے دفورِ نور عدم نور ہو جاتا ہے۔ "اندھیارے میں تنگ ہیں نظریں
اُجیارے میں دنگ”۔ اُجیارا اپنے ساتھ حیرت کے ہزار قرینے لاتا ہے اور اندھیارا تو مشاہدے کا عدم ہے ہی….!!
اربوں انساں ، اربوں تارے، سارا جگ نیرنگ
دن نکلا تو نور ندی میں ڈوب گئے سب سنگ
بعض علاقائی الفاظ مثلاً محبوب کے لئے”ڈھولا”۔یا” دن وچ رنگ میں بھنگ”اس رنگ کو ایک نئی معنویت اور مطابقت عطا کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بلے صاحب کے اس رنگ کو اہلِ ذوق کے ہاں مقبولیت حاصل ہو گی اور اس کی غنائیت اور گیت رنگ کا آہنگ اس کے لئے دوام کی سند ہوگا۔
——
اس مضمون میں ڈاکٹر اسلم انصاری نے اپنے زاوئیے سے سید فخرالدین بلے کے خوبصورت رنگ کو دیکھا اور اپنی آنکھوں سے دُنیا کو دکھایا ہے ۔ انہوں نے جس خوبصورتی کے ساتھ اس رنگ میں چُھپی ہوئی دنیاؤں کواجاگر کیاہے ، اس سے اس رنگ کی معنوی تفہیم بہت آسان ہوگئی ہے ۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیے ،معروف دانشور، ریڈیوپاکستان کے ریٹائرڈ سینئر پروڈیوسر،شاعر اور ادیب اور کئی شعری اور نثری کتابوں کے مصنف محمدانور معین زبیری کی ایک تحریر جس کاعنوان ہے” سیدفخرالدین بلے کانیا رنگ ” ۔یہ کتاب دراصل محمد انور معین زبیری کی ایک کتاب "امیرخسرو سے سیدفخرالدین بلےتک ” سے ماخوذ ہے۔ یہ وہ کتاب ہےجومنصہء اشاعت پر جلوہ گر تو نہیں ہوسکی کیونکہ اپنی زندگی کےآخری ایام میں محمد انور معین زبیری اسےپایہء تکمیل تک پہنچانےکیلئے سرگرم تھے لیکن زندگی نے انہیں یہ منصوبہ پایہء تکمیل تک پہنچانے کی مہلت ہی نہیں دی۔
——
سید فخرالدین بلے کا رنگ ۔ کیا کہنے
تحریر: احمد رئیس چشتی ، کراچی
——
گزشتہ دنوں جناب جمیل الدین عالی نے اپنے کالم کی تین اقساط میں علامہ غلام شبیر بخاری کے تحقیقی مضمون کے اقتباسات فخر الدین بلے کی ادبی شخصیت کے حوالے سے پیش کئے اور خو ب خوب فخرالدین بلے کا تعارف کرایا۔ جس کیلئے ہم عالی جی کے ممنون ہیں۔
میں نے معروف شاعر شبنم رومانی مرحوم مدیر اقدار، کراچی کو ایک مکتوب دس جولائی دوہزارچھ کو لکھا تھا کہ اقدار کے تازہ شمارے جلدنمبرآٹھ میں کئی خوبصورت تحریریں ہیں۔سات صدیوں کے بعد رنگ کے عنوان کے تحت اسلم انصاری نے رنگ کو مذہبی صوفیانہ شاعری میں ایک بڑا درجہ دیا ہے اور حضرت امیر خسرو کے جواب میں فخرالدین بلے کو لاکھڑا کیا ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی ہرممکن گنجائش ہے مگر حضرت امیر خسرو کا رنگ ،رنگ ہے اور باقی سب کی گل کاریاں اور ہم اہلِ تصوف کے زاویوں ، خانقاہوں، آستانوں، درگاہوں پر منعقدہ محفل سماع میں حضرت امیر خسرو کے رنگ کی اپنی تاریخی روایت واہمیت ہے اور مجلسی ضرورت ۔اس مقام ومنصب کا کوئی اور اہل نہیں ہوسکتا۔ مجھے فخرالدین بلے کی شاعرانہ کاوش سے اختلاف نہیں ہے۔ میں ان کے فنی کمالات کا دل سے معترف ہوں ، مگر ان کی فکری سطح اپنی ہے اور حضرت امیر خسرو کی اس ماحول، اس فضا اوراس دنیا کی ہے، جو اہلِ تصوف کی فکر اور روحانی بصیرت اور ذہنی پرواز کی معراج ہے۔ سیدفخرالدین بلے کے کلام کو پڑھنے کی تشنگی رہی، ان کا صوفیانہ کلام "رنگ” کو مکمل شائع کرنا تھا۔ ان کے کلام کا بھرپور تعارف ہوناچاہئے تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم وفات
——
حسنِ اتفاق سے اب مجھے فخر الدین بلے کے قول اور رنگ، کے مطالعہ کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر جی خوش ہوا کہ انہوں نے واقعی حسن وعقیدت سے اس کڑی منزل میں کمال فن سے اپنی علمیت وہنر مندی کا لوہا منوالیا ہے۔ ایک عالم ان کی اس منفرد کاوش کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔میں بھی انہیں دل سے دُعا دے رہا ہوں اور ایک ایک ایک مصرع پڑھ کر سرشاروبے خود ہوں۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت و عقیدت اور صوفیائے کرام اوربزرگانِ دین سے وابستگی ونسبت کا یہ انمٹ یادگار تحفہ ءدلپذیر ہے اور ہمیشہ اللہ والوں کی محفل میں اسی رنگ اور قول کی روشنی سے ابد آفریں نور پھیلتا رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے قوالیوں اورتمام روحانی مجالس میں عام کیا جائے۔ ادبی جرگوں اور ادبی نشستوں سے آگے بڑھایا جائے اور اہلِ دل، اہلِ عرفان تک پہنچایا جائے، فخرالدین بلے نے بین السطور جو پیغام دیا، اسے عام کرنے کی ضرور ت ہے۔
فخرالدین بلے ادیب باکمال، شاعر ِبے مثال اور ایک شخص بے نظیر تھے، ان کی علمی و ادبی کاوشوں کے احاطے کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ انشاءاللہ پھر بشرطِ حیات گفتگو ہوگی۔ فخر الدین بلے ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر وہ ہر دل کی زینت ہیں، ہر محفل میں ان کا ذکر ہوتا ہے، ہر کوئی انہیں یاد کرتا ہے اور ہمیشہ انہیں محبت سے آواز دیتا رہے گا، آنس معین ان کا ایک قابل ِفخر ورثہ تھا اورہمیشہ رہے گا۔ سیدظفر معین بلّے اوران کے دیگر صاحب زادگان بھی خانوادہء علم وفکر کے روشن چراغ ہیں ۔ان کی بدولت ہمیں فخر الدین بلے کی علمی، ادبی اور تہذیبی امانتیں بطریقِ احسن ملتی رہیں گی اور ہم ان سے لمحہ لمحہ فیضاب ہوتے رہیں گے۔
(یہ مضمون نوائے وقت کراچی کے ادبی ایڈیشن کی زینت بنا تھا ۔7-5-2011)
——
اب آپ ملاحظہ فرمائیے ، امیرخسرو کے سات سو سال بعد تخلیق کیا گیا وہ رنگ جس پر بہت سے شاعروں ،ادیبوں ، عالموں اور ناقدوں نے مضامین باندھے ہیں ۔
——
سید فخرالدین بلے کا رنگ
——
سات زمینیں ، سات فلک ، ہیں سات دَھنک کے رنگ
سات ُسروں کی سنگیتا ہے ، سرگم ہفت آہنگ
سَا۔ رے۔گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ دَھا۔پا۔ ما۔ گا۔ نی۔ سا ۔ رَنگ

لکھ چوبیس ہزار سَجیلے لے کے آئے رنگ
رنگینی پر مَہاراج کو رَب نے دی فرہنگ

اکِ دروازہ سات جھروکے مولا ہفت اورنگ
ایک علامت مرکز کی ، چھ سمتوں کے سرہنگ
حَسنین و َسلمان و بوذر،حَسن ، اَویس، کمیل
ایک علامت مرکز کی ، چھ سمتوں کے سرہنگ
سات زمینیں، سات فلک ، ہیں سات دَھنک کے رنگ
سرَگم ہفت آہنگ ، مولا ہفت اورنگ

آوٴ سَکھیو! مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ

دیکھن میں تو ہر ڈھولے کا الگ الگ ہے انگ
رَنگ الگ، آہنگ الگ اور الگ الگ ہیں ڈھنگ
آؤ سَکھیو! مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ

اَندھیارے میں تنگ ہیں نظریں ، اُجیارے میں دَنگ
چَندا ہو تو کم کم تارے، دن وچ رنگ میں بھنگ

اربوں انساں، اربوں تارے، سارا جگ نیرنگ
دِن نِکلا تو نُور ندی میں ڈوب گئے سب سنگ

آؤسَکھیو! ِمل کر کھیلیں رنگ سجن کےسنگ

روپ نگر تو رنگ نگر ہے تن رنگے من رنگے
نُور نگر میں لیکن بلے ہَر جامہ بے رنگ
سَا۔ رے۔گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ دَھا۔پا۔ ما۔ گا۔ نی۔ سا ۔ رَنگ

آوٴ سَکھیو! مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ
——
سید فخرالدین بلے
——
قوالی کا رنگ ۔ امیر خسرو سے سید فخرالدین بلے تک
سید فخرالدین بلے ۔ ایک داستان ۔ ایک دبستان ۔
تالیف :سید تابش الوری کی تالیف سے ماخوذ ہے یہ باب
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ