سر جھکا کر بات سننے والی کبھی کسی بات کا جواب نہ دینے والی نور الفروز ……؟؟؟
وقت نے ہمہ وقت خاموشی کا لبادہ پہننے پر مجبور کردیا تھا. ظلم اور بے بسی کا جیتا جاگتا نمونہ……
کبھی کسی خواہش نے جنم نہیں لیا اگر دل میں یہ احساس پیدا بھی ہوا تو غربت کی نذر ہوگیا. نور الفروز نے جہاں غریبی دیکھی وہی تاریکی کے منظر بھی دیکھے.خورشید کی روشنی میں بھی رات کی سیاہی……. زندگی کے جس مقام پر نور الفروز کھڑی تھی. اُس کا واحد حل حالات سے سمجھوتا تھا.
نور الفروز سمجھوتا خود کے ساتھ لازمی کرتی. مگر کبھی کبھار کچرے کے ڈھیر میں سے کچرا اٹھاتے ہوئے.خود کی ذات کو بھی کچرا، محسوس کرتی…… جس گھر میں پیدا ہوئی پلی بڑھی وہاں کا پیشہ کچرے میں زندگی گزارنا تھا. سڑک کنارے کچرے کے ڈھیر میں من پسند کچرا اکھٹا کرنا. من پسند کی تعریف یوں ہوسکتی تھی. جس کو بآسانی بیچا جاسکے….. یا پھر کچےے کے ڈھیر میں سے کوئی کھانے کے قابل چیز مل جائے……… صرف یہی زندگی………. اور نور الفروز……..؟
کس کو بتاتی اور کیا بتاتی؟ پڑھنے کی خواہش کو بچپن سے صرف سنتے ہی سنتے جوانی تک لے آئی. خواہش حسرت بن گی لیکن کبھی پوری نہیں ہوئی. نورالفروز کی ماں ایک دن میں کتنے مرد تبدیل کرتی؟ کتنے مردوں کے ساتھ وقت گزارتی؟ نور الفروز سوچ سوچ کر روتی آہیں بھرتی…… معاشرے میں عزت جو بالکل نہیں اور شرم و حیا کا ذکر بھی نہیں. جن مردوں کے ساتھ ماں کا معاشقہ ہوتا وہی مرد نورالفروز کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہتے. نور الفروز ہر بار کسی نہ کسی بہانے گھر سے فرار رہتی تاکہ ان عیاش پرستوں سے بچ سکے.
نور الفروز کو یہ بھی علم نہیں تھا.وہ بیٹی کس کی ہے؟ اُس کا باپ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ ماں کے چال چلن گواہ تھے کہ نور الفروز کسی ناجائز فعل کا نتیجہ تھی.
——
یہ بھی پڑھیں : ابن انشا کا یوم وفات
——
جسم فروشی دھندہ بن چکی تھا. ہر روز گھر میں بحث مباحثہ……. بات کرنے کے آداب تک کا علم نہیں تھا…. نور الفروز کی ماں نورالفروز کو نوری کہا کرتی تھی….. تپتی دوپہر میں دور سے نوری کو آوازیں دیتی ہوئی. گھر کے اندر داخل ہوئی. جو گھر کم اور کچرا کنڈی زیادہ تھا. نوری بھاگتی ہوئی چھت سے نیچے آئی. اور کانپتے ہوئے بولی…… جی اماں……. اماں کے چہرے کے تاثرات سے ظاہر تھا. کہیں کسی جگہ سے منہ کالا کرکے آئی ہے. نوری کدھر مرگئی تھی؟ چھت پر کس عاشق سے باتیں کرتی ہیں؟ نوری رعب دار ہو کر بول پڑی….. اماں کچھ فکر کر تجھے کچھ لحاظ نہیں تو اپنی بیٹی کے ساتھ کیا بات کررہی…..؟
اماں قہقہے لگا کر ہنسی تو اور میری بیٹی…. مجھے تو یاد بھی نہیں تو میری بیٹی ہے بھی یا نہیں.نور الفروز باورچی خانے کا رخ کرتے ہوئے چلی گئی… اماں تجھے پاگل پن کا دورہ پڑا ہے. رک میں تیرے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں.
نور الفروزکے گھر میں صرف ایک کمرہ تھا. جس کمرے میں ہر وقت شراب اور سگریٹ کی بدبو……….گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو.شراب کی کثرت ضرور تھی.
نور الفروز کو سگریٹ کی لت پڑ چکی تھی. وہ نور الفروزجس نے خود کو پردے میں چھپا رکھا تھا. وہ بھی جیسا دیس ویسا بھیس…… عادی بن چکی تھی. سگریٹ کا نشہ پورا کرنے کے لیے بھیک مانگتی. بھکاریوں والا چغہ پہن کر رات دیر دیر تک گھر سے غائب رہتی.
چوری، ڈکیتی کی واردات میں حصہ دار بن گئی. بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں کلیدی کردار بن کر سامنے آتی.
نور الفروزآسمان کی جانب نظریں جمائے. کسی غلط کام کی منصوبہ بندی میں محو تھی….. اچانک دروازے کی دستک سنائی دی. جونہی دروازہ کھولا. سامنے اماں کو پایا…. اماں گھر کی چوکھٹ پر خون سے آلودہ کپڑوں کے ساتھ….. نور الفروز زار و قطار رونے لگی. اکیلی محلے والوں کو صدائیں دیتی. شریف گھرانوں کے لوگ ممکن ہی نہیں تھا. اپنے گھروں سے باہر نکلتے. نور الفروز سہارے کی تلاش میں در بدر بھٹکتی.
نور الفروز کی تلاش بھی ادھوری رہی. اور اماں بھی چل بسی……. کفن دفن کے لیے بھی ادھار…….. شاید اب نور الفروز سدھر جاتی. ایسا ہوتا معجزہ تھا. نور الفروز اماں کے مرنے کے دو دن بعد ہی اپنے برے کاموں کی طرف پلٹ آئی. نور الفروزکے حصہ دار ساتھی…..پل پل کی رپورٹیں دیتے. یار آج یہاں سے چوری کرنی ہے یہاں سے بچہ اغواء کرنا ہے. نور الفروز کی خور غرضی عروج پر تھی. شام کے چھ بجے بھرے مجمعے میں بچہ اغواء…… یقیناً یہ حرکت نور الفروزکی تھی. یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی. کیوں کہ یہ بچہ ملک کی نامور شخصیت کا تھا. نور الفروزکی تلاش جاری تھی. پولیس کونے کونے کی تلاشی لیتی. پچھلے دو سال پولیس نور الفروزکے طریقہ واردات سے آگاہ تھی. کبھی کسی جگہ سے نور الفروز مل جائے. مگر نور الفروزچہرہ بدل بدل کر بچے تھیلے میں ڈالتی. جیسے کسی جانور کو تھیلے میں ڈالا جاتا ہے. نور الفروز کو معلوم نہیں تھا.یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں.
پومی نورالفروز، کا شاگرد تھا… جس نے نور الفروزسے تربیت لی تھی. اندھیر نگری میں بند اردگرد ہولناک ویرانی…….
——
یہ بھی پڑھیں : سارا شگفتہ کا یوم وفات
——
میڈم نور الفروزمجھے ڈر لگ رہا ہے. یہ بچہ کہیں ہماری موت کی وجہ نہ بن جائے. نور الفروزنے زور دار تھپڑ پومی کے منہ پر رسید کیا….. اور بولی بکواس بند کر…. تجھ کو پتا کچھ ہے نہیں اور مجھے سمجھا رہا ہے.
پومی مزید کچھ بولتا…… نور الفروزنے پستول تانی اور معصوم بچہ جو نور الفروزکے پاس بیٹھا تھا. اس کو نشانہ بنایا. پلک جھپکتے ہی وہ ہوگیا….. جس کا تصور کرنا بھی مشکل تھا.
کبھی کسی خواہش نے جنم نہیں لیا اگر دل میں یہ احساس پیدا بھی ہوا تو غربت کی نذر ہوگیا. نور الفروز نے جہاں غریبی دیکھی وہی تاریکی کے منظر بھی دیکھے.خورشید کی روشنی میں بھی رات کی سیاہی……. زندگی کے جس مقام پر نور الفروز کھڑی تھی. اُس کا واحد حل حالات سے سمجھوتا تھا.
نور الفروز سمجھوتا خود کے ساتھ لازمی کرتی. مگر کبھی کبھار کچرے کے ڈھیر میں سے کچرا اٹھاتے ہوئے.خود کی ذات کو بھی کچرا، محسوس کرتی…… جس گھر میں پیدا ہوئی پلی بڑھی وہاں کا پیشہ کچرے میں زندگی گزارنا تھا. سڑک کنارے کچرے کے ڈھیر میں من پسند کچرا اکھٹا کرنا. من پسند کی تعریف یوں ہوسکتی تھی. جس کو بآسانی بیچا جاسکے….. یا پھر کچےے کے ڈھیر میں سے کوئی کھانے کے قابل چیز مل جائے……… صرف یہی زندگی………. اور نور الفروز……..؟
کس کو بتاتی اور کیا بتاتی؟ پڑھنے کی خواہش کو بچپن سے صرف سنتے ہی سنتے جوانی تک لے آئی. خواہش حسرت بن گی لیکن کبھی پوری نہیں ہوئی. نورالفروز کی ماں ایک دن میں کتنے مرد تبدیل کرتی؟ کتنے مردوں کے ساتھ وقت گزارتی؟ نور الفروز سوچ سوچ کر روتی آہیں بھرتی…… معاشرے میں عزت جو بالکل نہیں اور شرم و حیا کا ذکر بھی نہیں. جن مردوں کے ساتھ ماں کا معاشقہ ہوتا وہی مرد نورالفروز کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہتے. نور الفروز ہر بار کسی نہ کسی بہانے گھر سے فرار رہتی تاکہ ان عیاش پرستوں سے بچ سکے.
نور الفروز کو یہ بھی علم نہیں تھا.وہ بیٹی کس کی ہے؟ اُس کا باپ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ ماں کے چال چلن گواہ تھے کہ نور الفروز کسی ناجائز فعل کا نتیجہ تھی.
——
یہ بھی پڑھیں : ابن انشا کا یوم وفات
——
جسم فروشی دھندہ بن چکی تھا. ہر روز گھر میں بحث مباحثہ……. بات کرنے کے آداب تک کا علم نہیں تھا…. نور الفروز کی ماں نورالفروز کو نوری کہا کرتی تھی….. تپتی دوپہر میں دور سے نوری کو آوازیں دیتی ہوئی. گھر کے اندر داخل ہوئی. جو گھر کم اور کچرا کنڈی زیادہ تھا. نوری بھاگتی ہوئی چھت سے نیچے آئی. اور کانپتے ہوئے بولی…… جی اماں……. اماں کے چہرے کے تاثرات سے ظاہر تھا. کہیں کسی جگہ سے منہ کالا کرکے آئی ہے. نوری کدھر مرگئی تھی؟ چھت پر کس عاشق سے باتیں کرتی ہیں؟ نوری رعب دار ہو کر بول پڑی….. اماں کچھ فکر کر تجھے کچھ لحاظ نہیں تو اپنی بیٹی کے ساتھ کیا بات کررہی…..؟
اماں قہقہے لگا کر ہنسی تو اور میری بیٹی…. مجھے تو یاد بھی نہیں تو میری بیٹی ہے بھی یا نہیں.نور الفروز باورچی خانے کا رخ کرتے ہوئے چلی گئی… اماں تجھے پاگل پن کا دورہ پڑا ہے. رک میں تیرے لیے شربت بنا کر لاتی ہوں.
نور الفروزکے گھر میں صرف ایک کمرہ تھا. جس کمرے میں ہر وقت شراب اور سگریٹ کی بدبو……….گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو.شراب کی کثرت ضرور تھی.
نور الفروز کو سگریٹ کی لت پڑ چکی تھی. وہ نور الفروزجس نے خود کو پردے میں چھپا رکھا تھا. وہ بھی جیسا دیس ویسا بھیس…… عادی بن چکی تھی. سگریٹ کا نشہ پورا کرنے کے لیے بھیک مانگتی. بھکاریوں والا چغہ پہن کر رات دیر دیر تک گھر سے غائب رہتی.
چوری، ڈکیتی کی واردات میں حصہ دار بن گئی. بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں کلیدی کردار بن کر سامنے آتی.
نور الفروزآسمان کی جانب نظریں جمائے. کسی غلط کام کی منصوبہ بندی میں محو تھی….. اچانک دروازے کی دستک سنائی دی. جونہی دروازہ کھولا. سامنے اماں کو پایا…. اماں گھر کی چوکھٹ پر خون سے آلودہ کپڑوں کے ساتھ….. نور الفروز زار و قطار رونے لگی. اکیلی محلے والوں کو صدائیں دیتی. شریف گھرانوں کے لوگ ممکن ہی نہیں تھا. اپنے گھروں سے باہر نکلتے. نور الفروز سہارے کی تلاش میں در بدر بھٹکتی.
نور الفروز کی تلاش بھی ادھوری رہی. اور اماں بھی چل بسی……. کفن دفن کے لیے بھی ادھار…….. شاید اب نور الفروز سدھر جاتی. ایسا ہوتا معجزہ تھا. نور الفروز اماں کے مرنے کے دو دن بعد ہی اپنے برے کاموں کی طرف پلٹ آئی. نور الفروزکے حصہ دار ساتھی…..پل پل کی رپورٹیں دیتے. یار آج یہاں سے چوری کرنی ہے یہاں سے بچہ اغواء کرنا ہے. نور الفروز کی خور غرضی عروج پر تھی. شام کے چھ بجے بھرے مجمعے میں بچہ اغواء…… یقیناً یہ حرکت نور الفروزکی تھی. یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی. کیوں کہ یہ بچہ ملک کی نامور شخصیت کا تھا. نور الفروزکی تلاش جاری تھی. پولیس کونے کونے کی تلاشی لیتی. پچھلے دو سال پولیس نور الفروزکے طریقہ واردات سے آگاہ تھی. کبھی کسی جگہ سے نور الفروز مل جائے. مگر نور الفروزچہرہ بدل بدل کر بچے تھیلے میں ڈالتی. جیسے کسی جانور کو تھیلے میں ڈالا جاتا ہے. نور الفروز کو معلوم نہیں تھا.یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں.
پومی نورالفروز، کا شاگرد تھا… جس نے نور الفروزسے تربیت لی تھی. اندھیر نگری میں بند اردگرد ہولناک ویرانی…….
——
یہ بھی پڑھیں : سارا شگفتہ کا یوم وفات
——
میڈم نور الفروزمجھے ڈر لگ رہا ہے. یہ بچہ کہیں ہماری موت کی وجہ نہ بن جائے. نور الفروزنے زور دار تھپڑ پومی کے منہ پر رسید کیا….. اور بولی بکواس بند کر…. تجھ کو پتا کچھ ہے نہیں اور مجھے سمجھا رہا ہے.
پومی مزید کچھ بولتا…… نور الفروزنے پستول تانی اور معصوم بچہ جو نور الفروزکے پاس بیٹھا تھا. اس کو نشانہ بنایا. پلک جھپکتے ہی وہ ہوگیا….. جس کا تصور کرنا بھی مشکل تھا.