اُڑتے ہوئے غبار میں اجسام دیکھتے

ہم تھک چکے مناظرِ ابہام دیکھتے

اتنی قلیل عمر میں ممکن کہاں کہ لوگ

اتنے شدید درد کا انجام دیکھتے

صبحِ فراقِ یار تلک سنگ رہ گیا

اس دل کی رونقوں کو سرِ شام دیکھتے

جھپکی ہے آنکھ آج کہ اک عمر ہو گئی

لوحِ ہوا پہ نقش کوئی نام دیکھتے

ائے کاش ہم بھی جانکنی کے عذاب میں

اپنا یہ رقصِ مرگ سرِ عام دیکھتے

یعنی کہ تم تو دل کے گریباں میں جھانکتے

اس کشتہِ سکوت کے ہنگام دیکھتے

یا دھوپ دیکھتی تھی ہمیں رینگتے ہوئے

یا ریگ زارِ وقت کے اہرام دیکھتے

پھر پوچھتے کہ رات بھلا کیوں نہیں ہوئی

تم ایک بار وہ شفق اندام دیکھتے

رکھنا پڑا ہے رہن فقط اپنے آپ کو

اب کیا تمہارے قرب کے بھی دام دیکھتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]