یہی کمال مرے سوختہ سخن کا سہی

چراغ ہو تو گیا ہے وہ انجمن کا سہی

تمام عمر کہ یوں بھی سفر میں گزری ہے

سو اب کی بار زمیں تک سفر تھکن کا سہی

جواب یہ کہ فناء لُوٹ لے گی بالآخر

سوال گرچہ ترے شوخ بانکپن کا سہی

اسیرِ دشتِ حوادث تو پھر بھی مت کیجے

غزالِ دل کو بڑا پاس اس ختن کا سہی

جنوں میں عقل پہ پڑنا تو تھا کوئی پردہ

یہ پارچہ ترے رنگین پیرہن کا سہی

یہ تذکرہ ہے ترے بے وقار ہونے کا

یہ مرثیہ مرے حرماں نصیب فن کا سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]