اردوئے معلیٰ

آزردہ و رنجیدہ ہے دلشاد نہیں ہے

جس دل میں بپا محفلِ میلاد نہیں ہے

 

بس ایک سے دو گز کی زمیں شہرِ کرم میں

جز اِس کے کوئی بھی مری فریاد نہیں ہے

 

معبود نہیں بندۂ معبود ہیں لیکن

سر کیسے جھکا ان کی طرف یاد نہیں ہے

 

بس کاسہ بہ کف پیش کرو مدح نبی کی

یہ راہِ سخن عجز سے آزاد نہیں ہے

 

ہے کارِ عبث زورِ بیاں شعر بیانی

گر طرزِ سخن عشق سے آباد نہیں ہے

 

سوچا تھا سناؤں گا انہیں ہجر کہانی

اب یاد مجھے اپنی ہی روداد نہیں ہے

 

ممکن ہی نہیں لفظ کوئی نعتِ نبی کا

جو عشقِ نبی دل میں جہاں داد نہیں ہے

 

ہر نعت کا معیار ہے اخلاص ہی منظر

اشعار و مضامین کی تعداد نہیں ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ