اردوئے معلیٰ

آقا حصارِ کرب سے ہم کو نکال دیں

آقا یہ عہدِ تیرہ شبی ہم سے ٹال دیں

 

آقا ہمارے قلب میں دیں کی تڑپ نہیں

ویران سی حیات کو حسن و جمال دیں

 

آقا ہماری سوچ ہے ذاتی مفاد تک

تاریکیِ خیال ہماری اُجال دیں

 

آقا حضور سہمی ہوئی ہے یہ زندگی

اس کو بھی آپ عزت و رحمت کی شال دیں

 

آقا ہمیں ہے تیشہِ ہمت خریدنا

بہرِ کرم عطاؤں کے سِکّے اُچھال دیں

 

آقا صراطِ جرأت و غیرت کے در کھلیں

پھر سے وہ رعب و دبدبہ جاہ و جلال دیں

 

آقا جُدا کیا ہمیں باطل کی چال نے

اُمت کو اتحاد کا اوج و کمال دیں

 

آقا ہماری موت ہے فتنوں کی دلکشی

اِن حاکمانِ وقت کو حکمت کی ڈھال دیں

 

آقا سبھی ہیں ملک کے کردار کاغذی

طرزِ صحابہؓ کی یہاں کس کو مثال دیں

 

آقا یہ عدل مسندیں گر دے سکیں نہ عدل

اتنا تو ہو غریب کو اذنِ سوال دیں

 

آقا ہمیں بھی طاعتِ صدیقؓ ہو عطا

اور حیدریؓ کمال بھی صدقہِ آل دیں

 

آقا نظر ملانے کے قابل نہیں ہوں میں

نظرِ کرم شکیلؔ کے کاسے پہ ڈال دیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔