اب ترکِ آرزو ہی مناسب ، کہ آرزو
اس عہدِ ناشناس میں شرمندگی ہوئی
سمجھے گئے فنون ، ہوس کی حکائیتیں
رسوائیوں کا رزق مری شاعری ہوئی
تیری ذہانتوں نے بچا لی ہے لاج ، اور
عریاں بیان ہو کے مری سادگی ہوئی
مٹی میں مل گئی ہے بصد عجز آخرش
وہ جو جبین تھی ترے در پر دھری ہوئی
خواہش عجیب تھی کہ ترے رنگ دیکھتے
اپنے اڑے جو رنگ تو حالت بری ہوئی
مغرور ہو چلے تھے گئے وقت کے خدا
اوقات کھل گئی تو ندامت بڑی ہوئی