اس لیے لکھتا نہیں میں دل ِغمگین کا دکھ

اس لیے لکھتا نہیں میں دلِ غمگین کا دکھ

کون سمجھے گا یہاں میرے مضامین کا دکھ

ایک تو چیر گئی اس کی غزل دل میرا

اور اس پر وہ مرے نعرہء تحسین کا دکھ

اک طرف کابل و کشمیر کراچی کی آگ

اک طرف شام حلب اور فلسطین کا دکھ

ایک دنیا ہے دکھوں والی ہمارے اندر

ہم نے رکھا نہیں دل میں کبھی,, دو تین,, کا دکھ

خود کو فرہاد کا استاد سمجھنے والے

مجھ کو سمجھا دے فقط عشق کی تو ,, شین ,, کا دکھ

میں نے جب جون کی ”شاید” کو سرھانے رکھا

آ گئی وہ بھی لیے آنکھ میں ” پروین” کا دکھ

بس لیے جاتا ہے احساس سے عاری سانسیں

شیخ کو دنیا کا ہے اور نہ ہی دین کا دکھ

پڑھ رہے تھے کسی کے ہونٹ دعا ہجر کی جب

میں نے کاغذ پہ لکھا خون سے,, آمین,, کا دکھ

میری آنکھوں میں سبھی اشک تھے میٹھے حیدر

میرے گالوں پہ رہا اس لب ِ نمکین کا دکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]