اردوئے معلیٰ

اس کی تصویر جلانی پڑی ہے

رات آنکھوں میں بتانی پڑی ہے

 

میں ہی افسانہ نہ ہو جاؤں کہیں

میرے سینے پہ کہانی پڑی ہے

 

ایسی حسرت کا بھلا کیا کیجے

شمع امید بجھانی پڑی ہے

 

ایک کاغذ کو جلانا پڑا ہے

ایک تحریر مٹانی پڑی ہے

 

خاک میں خود کو ملایا میں نے

خاک صحرا میں اڑانی پڑی ہے

 

میں اسے بھول نہیں سکتا زبیرؔ

میز پر یاد دہانی پڑی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ