اردوئے معلیٰ

افکار پہ پڑتی نہیں ادبار کی چھایا

جب سے ہے تری نعت میں لفظوں کو سجایا

 

ہر شخص کا ہے اپنا نسَب ، اپنا نصیبہ

میں نے تو ترا نام لیا ، نام کمایا

 

محتاج ہے اِک چشمِ عنایت کی سرِ حشر

اے شافعِ محشر ! یہ مری فردِ خطایا

 

خواہش سے فزوں تر ہے یدِ خیرِ معلیٰ

حاجت سے بھی دیتا ہے سوا دستِ عطایا

 

بخشا ہے مری زیست کو جب اذنِ حضوری

دے موت کو بھی اذن مدینے میں خدایا

 

جبریل نے عطا کی عرض کہ سرکارِ دو عالَم !

آفاق میں کوئی ترے پائے کا نہ پایا

 

رکھے گا بھرم خود ہی مری بے ہُنری کا

وہ اسم کہ لب پر ہے سجا ، دل میں بسایا

 

اُنظر سے دکھایا اُنہیں حالِ دلِ مُضطَر

اِسمَع سے اُنہیں قصۂ غم ہم نے سُنایا

 

تھا نخلِ عمل بادِ خزاں ریز کی زد پر

آقا نے بچانا تھا ، سو آقا نے بچایا

 

بُجھ جائے گی صدیوں کی عطَش بار تمازت

جب تشنۂ چشمانِ کرم حوض پہ آیا

 

بے وجہ نہیں حرف مرے چاند ستارے

مقصودؔ ! مرا خامہ ہے طلعت میں نہایا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ