انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا
رس رُوح تلک بوسے کی تاثیر سے پہنچا
پھر مُند گئیں دروازے کو تکتی ھُوئی آنکھیں
پیغام رساں تھوڑی سی تاخیر سے پہنچا
عُجلت میں پڑے لڑکو ! سُنو میری کہانی
مَیں عشق تلک صبر کی تدبیر سے پہنچا
قیدی کے خطوں پر بڑے پہرے تھے، لہٰذا
پیغام مٹائی ھُوئی تحریر سے پہنچا
قبل اس کے کہ جن قتل ھی کردیتا پری کو
شہزادہ کوئی مُلکِ اساطیر سے پہنچا
پھر پنجتَنِ پاک کی تقدیس بتانے
پیغامِ خُدا آیۂ تطہیر سے پہنچا
وہ گھاؤ ھے گہرا کہ جو پہنچا ھے زباں سے
اُس زخم کی نسبت کہ جو شمشیر سے پہنچا
آنکھوں سے تو ٹپکے گا جو دُکھ اندھے گدا کو
اک گالیاں دیتے ھُوئے رھگیر سے پہنچا
ورنہ تو میرے پاس عمَل تھے نہ عَلَم تھا
مَیں مولا تلک نوحۂ دلگیر سے پہنچا
پہنچی مرے دل تک تری آواز کی تاثیر
پھر مَیں ترے در تک اُسی تاثیر سے پہنچا
درکار تھا کُچھ رنگ حُریّت کے عَلَم کو
پھر تازہ لہُو وادئ کشمیر سے پہنچا
ثروت ھو کہ اظہار ھو، تابش ھو کہ جاذب
فارس ! ھمیں سب فیضِ سُخن میر سے پہنچا