’’اُفق پہ شام کا منظر لہو لہو کیوں ہے‘‘
فلک پہ آج یہ اختر لہو لہو کیوں ہے
وہ جس کا رونا بھی ہے طبعِ شہِ دیں پہ گراں
وہی برادرِ شبّر لہو لہو کیوں ہے
سسک رہی ہے مقدر پہ نینوا کی زمین
کہ اس پہ آلِ پیمبر لہو لہو کیوں ہے
یزید زادوں سے یہ پوچھتے ہیں شاہِ زمن
کہ آلِ نور کا دلبر لہو لہو کیوں ہے
سپاہِ شام کے اے سورما بتا تو سہی
کہ شیر خوار یہ اصغر لہو لہو کیوں ہے
حسین لاش جو لائے تو پوچھا زینب نے
کہ بھائی ! میرا یہ اکبر لہو لہو کیوں ہے
بتا دے مجھ کو اے ملاں یزید کے حامی
شمر کے ہاتھ میں خنجر لہو لہو کیوں ہے
جلیل آج یہ لب پر سوال ہے سب کے
کہ آلِ ساقی کوثر لہو لہو کیوں ہے