اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر ڈاکٹر سید وحید اختر کا یومِ پیدائش ہے۔

ڈاکٹر سید وحید اختر
——
(پیدائش: 12 اگست 1934ء – وفات: 13 دسمبر 1996ء)
——
نام وحید اختر، اور تخلص وحید ہے۔
12اگست 1934ء کو اورنگ آباد ،دکن میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۴ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے کیا اور ۱۹۵۶ء میں ایم اے کیا۔ ۱۹۶۰ء میں خواجہ میر درد کے تصوف پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
وحید اختر کی پہلی نظم ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی۔ان کی طبیعت کا رجحان نظم کی طرف زیادہ ہے ۔ ان کی تخلیقات ہندوستان اور پاکستان کے معیاری رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں اورنگ آباد کالج کے رسالہ ’’نورس‘‘ اور مجلہ’’عثمانیہ‘‘ کے مدیر رہ چکے ہیں۔ رسالہ ’’صبا‘‘ کی ادارت کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ فلسفہ رہے۔ ’’پتھروں کا مغنی‘‘ کے نام سے ان
کا کلام چھپ گیا ہے۔
وحید اختر کے دیگر شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:’’زنجیر کا نغمہ‘‘، ’’شب کا رزمیہ‘‘
سید وحید اختر کا دہلی میں 13 دسمبر 1996 کو انتقال ہوا۔
——
کچھ وحید اختر کے بارے میں از سرور الہدیٰ
——
وحید اختر کی ذہانت اور علمیت نے ان کی تخلیقات کو استحکام بخشا ہے۔ علمیت تخلیق کار کو ایک خاص دائرے کا قیدی بھی بنا دیتی ہے۔ وہ مخصوص فکری اور لسانی دائرے میں رہ کر ادب اور زندگی کے بارے میں سوچتا ہے۔ وحید اختر نے تاریخی اور تہذیبی حوالوں کو خالص ادب یا ادب کے ادبی معیار کے نام پر نظرانداز نہیں کیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وحیدا ختر تاریخ اور تہذیب کو بعض جوشیلے اور انتہا پسند ترقی پسندوں اور جدیدیوں دونوں سے مختلف اندازمیں دیکھتے ہیں۔ جدیدیوں نے تاریخ اور تہذیب کو اہمیت تو دی مگر خالص ہنرمندی کے تصور کے سبب تاریخ ا ور تہذیب سے سچی اور گہری وابستگی قائم نہیں ہوسکی۔ ترقی پسندوں کا مسئلہ تاریخ کو ادب بنانا تھا۔ وہ بھی اس طرح کہ تاریخی حقائق کی تجرید نہ ہوسکے۔ ان انتہاؤں کے درمیان وحیدا ختر نے جو رویہ اختیار کیا اس میں اپنی ہنرمندی اور تاریخی و تہذیبی حوالوں کا احترام ہے۔ وحیدا ختر کی نثری اور شعری دنیا اس لیے وسیع ہے کہ انھوں نے فکر و اظہار کی سطح پر کوئی پابندی قبول نہیں کی۔ ترقی پسندی سے ان کی شکایت یہ تھی کہ اس نے خود کو فارمولائی بنا لیا۔ جدیدیت اس روش کے خلاف بطورا حتجاج سامنے آئی مگر وہ بھی رفتہ رفتہ فارمولے کی نذر ہوگئی۔ وحیدا ختر نے ’زنجیر نغمہ‘ میں پس نوشت کے تحت لکھا ہے۔ ’’خاص قسم کی آزادی کا پابند ہوجانا نئی طرح کی پابندی ہے۔‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا وحید الدین خان کا یومِ وفات
——
خلیل الرحمن اعظمی پہلے نقاد ہیں جنھوں نے وحید اختر کی شاعری کو اس کے اصل سیاق میں دیکھنے کی کوشش کی۔ نظریاتی طور پر وحید اختر اور خلیل الرحمن اعظمی جدیدیت کے حامی اور طرفدار تھے۔ دونوں نے اپنے مضامین کے ذریعہ جدیدیت کی روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ وحیدا ختر نے شاعری کو جدید بنانے کی اس طرح کوشش نہیں کی جس کی مثالیں ان کے معاصرین کے یہاں ملتی ہیں۔ جس نقاد نے تواتر کے ساتھ جدید حسیت کو موضوع گفتگو بنایا اس کی شاعری کا مکمل طور پر جدید نہ بن پانا ایک واقعہ ہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ وحید اختر کی شاعری جدیدیت کی نمائندہ شاعری نہیں بن سکی۔ خلیل الرحمن اعظمی ’پتھرو ں کا مغنی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’جن لوگوں نے وحید اختر کی بعض نظمیں اور غزلیں اِدھر اُدھر سے پڑھی ہوں گی یا خود ان کی زبان سے سننے کا موقع انھیں ملا ہوگا ممکن ہے ان کا پہلا تاثر یہ ہو کہ یہ شاعری اپنے انداز۔ و اسلوب کے اعتبار سے اس شاعری سے کچھ مختلف نہیں ہے جسے ہم ترقی پسند شاعری کہتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ نئی نسل کے بہت سے دوسرے شعرا کے برخلاف ان کے یہاں اختصار اور پیچیدگی کے بجائے پھیلاؤ اور صراحت ملتی ہے۔‘‘ (ص 216)
وحید اختر کا مسئلہ نئی حسیت تھی، اسلوب نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ شعوری اور غیرفطری طور پر نظم کو ہیئتی بنانے کی کوشش کرتے۔ روایت ان کے لیے آسیب نہیں تھی اور وہ کسی اسلوب کو فیشن میں رد کرنا نہیں چاہتے۔ ایک ہی نظم میں واقعے کی مناسبت سے کئی اسالیب سے کام لیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے وحیدا ختر کی نظموں کے بعض مصرعے اضافی معلوم ہوں مگر تخلیق کار کی طبیعت کی روانی اور وفور کہاں جاکر دم لے گی اس کا فیصلہ کوئی نقاد یا قاری تو نہیں کرسکتا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے یہ بھی لکھا ہے:’’لیکن اس مجموعہ کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان نظموں اور غزلوں میں ہمیں جو فضا ملتی ہے اور اس کے اندر سے شاعر کی جو شخصیت ابھرتی ہے وہ اپنے پیش روؤں سے بالکل مختلف ہے۔ ان نظموں اور غزلوں کا شاعر اپنے جسم کے اعتبار سے اپنے بزرگ معاصرین سے مشابہ ہو تو ہو اپنی روح اپنے باطن کے اعتبار سے وہ ایک نئے وجود کا حامل ہے۔‘‘
وحید اختر کی نظموں میں خودکلامی کا وہ انداز نہیں ہے جسے عموماً جدیدیت سے وابستہ شاعری کے لیے لازمی تصور کیا گیا۔ وحید اختر نے کبھی خودکلامی کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کے تخلیقی اور تنقیدی ذہن میں کسی بھی رجحان یا رویے کا اصل سیاق ہوتا ہے۔ ایک جگہ کوئی چیز غیراہم اور اوڑھی ہوئی معلوم ہوسکتی ہے اور دوسری جگہ وہ چیز برجستہ اور مناسب ہوسکتی ہے۔ نئی نظم کی تنقید میں جب نظم کو سیاق سے کاٹ کر دیکھا گیا تو غیرضروری طور پر انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وحید اختر نے اپنی نظموں کو کسی خاص ہیئت اور فکر کا پابند نہیں بنایا۔ ان کی بعض نظموں کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پابندی اور بغاوت کا سفر ایک ساتھ جاری رہتا ہے اور کبھی الگ لگ بھی۔ نظم کی خارجی ہیئت پہلے ہی قاری کو متوجہ کرلیتی ہے۔ آزاد اور پابند نظم میں بہتر کون سی ہیئت اور آزاد نظم کہنے کا حق کسے حاصل ہے، یہ سب باتیں وحید اختر کی نظم نگاری کے سیاق میں اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ 60، 70 کی دہائی میں آزادا ور نثری نظم کے تخلیقی عجز کو چھپانے کا وسیلہ بنایا گیا۔ وحید اختر کی نظم یہ بتاتی ہے کہ کسی ہیئت کو اختیار کرنا اپنے تخلیقی عمل اور تخلیقی تقاضے کا خیال رکھنا ہے۔ اول و آخر تو تخلیقی حسیت ہے۔ انھوں نے تخلیقی سطح پر یہ بھی بتایا کہ نظم کہنے کے لیے فکر و خیال کی دنیا کا وسیع ہونا ضروری ہے۔ وسعت کے بعد بھی مختصر نظم بامعنی ہوسکتی ہے۔ مختصر نظم کے چھوٹے بڑے مصرعے غزل کے مصرعوں کی طرح بامعنی اور معنی آفریں ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ذہن کا بڑا ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں منیرنیازی اور شہریار کی مختصر نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : وحید اختر کا یومِ وفات
——
وحید اختر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اقبال کے ساتھ عظیم شاعری کا تصور بھی رخصت ہوگیا، گویا اقبال کے بعد جو شاعری سامنے آئی اس میں عظمت کے عناصر تو تھے لیکن یہ عظیم نہیں تھی، وحید اختر کے ذہن میں وہ اقدار ہیں جن سے کوئی شاعری علم و ذہانت کے ساتھ عظمت کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔ جب عقیدہ اور تصور متزلزل ہو اور انسان فکر و احساس کی سطح پر چھوٹے چھوٹے گھروندے بنا رہا ہو ایسے میں کسی ایسی شاعری کا وجود میں ا ٓنا دشوار ہے جو انفرادی ہونے کے ساتھ ساتھ کائناتی بھی ہو۔ وحید اختر نے اپنی شاعری میں اس کائناتی آہنگ کو برتنے کی کامیاب کوشش کی۔ ’شب کا رزمیہ‘ کی پہلی نظم ’شاعری‘ ہے۔ یہ نظم شاعر کا نظریۂ شعر بھی ہے اور نظریۂ کائنات بھی۔ یہ ایک آزاد نظم ہے جس میں شاعر کا تخیل اپنی ذات کے زنداں سے نکل کر کائنات میں باہیں ڈال دیتا ہے۔ وہ زماں مکاں کی سیر کرتا ہوا ذات کی طرف آتا ہے۔ اس درمیان اسے زندگی اور کائنات کی مختلف سچائیاں متوجہ کرتی ہیں۔ ان سچائیوں کا رشتہ زندگی کی تلخ سچائیوں سے ہے۔ آپ انھیں زندگی کی بدصورتیاں کہہ لیجیے :
——
خلوت ِ ذات کے محبس میں وہ بے نام اُمنگ
جس پہ کونین ہیں تنگ
چھان کر بیٹھی ہے جو وسعت ِ صحرائے زماں
جس کو راس آنہ سکی رسم ورہِ اہلِ جہاں
نشۂ غم کی ترنگ
خود سے بھی بر سرِ جنگ
پستیِ حوصلہ و شوق میں ہے قید وہ رُوحِ امکاں
شو رِ بزمِ طرب و شیونِ بزم ِ دل میں
دہر کی ہر محفل میں
جس نے دیکھی ہے سدا عرصۂ محشر کی جھلک
بوئے بازارمیں گُم کردہ رہی جس کی مہک
عالم ِ آب و گل میں
جہد کی ہر منزل میں
اپنے ہی ساختہ فانوس میں ہے قید وہ شعلے کی لپک
——
نظم کے ابتدائی یہ دو بند جس فکری بلندی اور کائناتی آہنگ کا پتہ دیتے ہیں وہ وحید اختر کی پوری شاعری میں موجود ہے۔ ان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے ہم مانوس نہ ہوں مگر شاعر انھیں جس طرح برتنے میں کامیاب ہوا ہے وہ فکری بلندی کے ساتھ لسانی اظہار کی بھی تو بات ہے۔ یہ وہ لسانی اظہار ہے جو لفاظی اوربے معنی لسانی جزیرہ نہیں۔ بہت غور و فکر کے بعد زبان نے اپنا عمل شروع کیا ہے۔ پہلا ہی مصرعہ بظاہر جدیدیت کا زائیدہ معلوم ہوتا ہے۔ ’خلوت ذات کے محبس میں وہ بے نام امنگ‘ مگر اس بے نام امنگ پر کونین تنگ بھی تو ہے۔ ذات سے کائنات تک کا یہ سفر کس قدر صبر آزماہے مگر دیکھیے اس امنگ کو بالآخر پناہ خلوت ذات ہی میں ملی۔
——
یہ بھی پڑھیں : وحید قریشی کا یوم وفات
——
یہاں کوئی نظریہ تیرتا نظر نہیں آتا۔ ایک شعلہ فطری طور پر بھڑکتا ہے مگر اس شعلے کی پرورش و پرداخت میں ایک باشعور تخلیقی ذہن نے حصہ لیا ہے جس کے پاس نظر اور نظریے کی وہ دولت ہے جس سے نہ انسانی اقدار کو خطرہ ہے اور نہ شعر و ادب کی بنیادی قدروں کو۔ اس عمل میں تشکیک بھی سر اٹھاتی ہے اور غم و غصہ بھی۔ یقین کی شمع بھی روشن ہوجاتی ہے اور بے یقینی کے اندھیرے بھی راستہ روکتے ہیں۔ یہ حقائق وحیدا ختر کے یہاں زندگی اور ادب دونوں کو قوت بخشتے ہیں۔ وحید اختر نے زندانِ ذات کو کائنات کا مرکز قرار دیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ زندان ذات کی صورت نئی شاعری میں ایک جیسی نہیں ہے
——
منتخب کلام
——
صرف دم لینے کو ہوتی ہے سفر میں منزل
کون کہتا ہے کہ مقصودِ سفر ہوتی ہے
کتنے ذروں کو گلہ ہوتا ہے محرومی کا
جب تری چاند ستاروں پہ نظر ہوتی ہے
——
آ آ کے رک گئے ہیں جہاں کاروانِ شوق
کرنا ہے اُس مقام سے عزمِ سفر مجھے
——
جب تک نہ تھا بہار کا ایما صبا تھی قید
فصلِ گُل آئی ، پاؤں سے زنجیر کھنچ گئی
——
لاکھ تمناؤں کا میلہ راکھ کے ڈھیر لگا جاتا ہے
ایک تمنا بہت ہے صدیوں دل کی آگ جلانے کو
——
اہلِ دنیا کو بہت ہم سے بھی امیدیں تھیں
زندگی ! تجھ سے مگر اپنا نہ جھگڑا ہوتا
——
مصلحت کہتی ہے جب چلیے تو اک عالم ہو ساتھ
اور از خود رفتگی ہے قافلہ نا آشنا
——
مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے
دینے والوں کی امیری کا بھرم کھلتا ہے
——
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے
——
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے
جو دیکھنا ہو تو آئینہ خانہ ہے یہ سکوت
ہو آنکھ بند تو اک نقش بھی دکھائی نہ دے
یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں
ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے
کچھ ایسے لوگ بھی تنہا ہجوم میں ہیں چھپے
کہ زندگی انہیں پہچان کر دہائی نہ دے
ہوں اپنے آپ سے بھی اجنبی زمانے کے ساتھ
اب اتنی سخت سزا دل کی آشنائی نہ دے
سبھی کے ذہن ہیں مقروض کیا قدیم و جدید
خود اپنا نقد دل و جاں کہیں دکھائی نہ دے
بہت ہے فرصت دیوانگی کی حسرت بھی
وحیدؔ وقت گر اذن غزل سرائی نہ دے
——
جس کو مانا تھا خدا کا پیکر نکلا
ہاتھ آیا جو یقیں وہم سراسر نکلا
اک سفر دشت خرابی سے سرابوں تک ہے
آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منتظر نکلا
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
خشک آنکھوں سے اٹھی موج تو دنیا ڈوبی
ہم جسے سمجھے تھے صحرا وہ سمندر نکلا
زیر پا اب نہ زمیں ہے نہ فلک ہے سر پر
سیل تخلیق بھی گرداب کا منظر نکلا
گم ہیں جبریل و نبی گم ہیں کتاب و ایماں
آسماں خود بھی خلاؤں کا سمندر نکلا
عرش پر آج اترتی ہے زمینوں کی وحی
کرہء خاک ستاروں سے منور نکلا
ہر پیمبر سے صحیفے کا تقضا نہ ہوا
حق کا یہ فرض بھی نکلا تو ہمیں پر نکلا
گونج اٹھا نغمہء کن دشت تمنا میں وحیدؔ
پاۓ وحشت حد امکاں سے جو باہر نکلا
——
دفتر لوح و قلم یا در غم کھلتا ہے
ہونٹ کھلتے ہیں تو اک باب ستم کھلتا ہے
حرف انکار ہے کیوں نار جہنم کا حلیف
صرف اقرار پہ کیوں باب ارم کھلتا ہے
آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی
ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرز کرم کھلتا ہے
مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے
دینے والوں کی امیری کا بھرم کھلتا ہے
بند آنکھیں رہیں میلا ہے لٹیروں کا لگا
اشک لٹ جاتے ہیں جب دیدۂ نم کھلتا ہے
جان دینے میں جو لذت ہے بچانے میں کہاں
دل کسی سے جو بندھے عقدۂ غم کھلتا ہے
ساتھ رہتا ہے سدا محفل و تنہائی میں
دل رم خوردہ مگر ہم سے بھی کم کھلتا ہے
دیکھو پستی سے تو ہر ایک بلندی ہے راز
جادۂ کوہ فقط زیر قدم کھلتا ہے
قرض ادا کرنا ہے جاں کا تو چلو مقتل میں
کھنچ گئی باگ بجا طبل و علم کھلتا ہے
——
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے
دن میں بکھرا ہوں بہت رات سمیٹے گی مجھے
تو بھی آ جا تو مری ذات مکمل ہو جائے
نیند بن کر مری آنکھوں سے مرے خوں میں اتر
رت جگا ختم ہو اور رات مکمل ہو جائے
میں سراپا ہوں دعا تو مرا مقصود دعا
بات یوں کر کہ مری بات مکمل ہو جائے
ابر آنکھوں سے اٹھے ہیں ترا دامن مل جائے
حکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے
ترے سینے سے مرے سینے میں آیات اتریں
سورۂ کشف و کرامات مکمل ہو جائے
تیرے لب مہر لگا دیں تو یہ قصہ ہو تمام
دفتر طول شکایات مکمل ہو جائے
تجھ کو پائے تو وحیدؔ اپنے خدا کو پا لے
کاوش معرفت ذات مکمل ہو جائے
——
دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے ترا نقش کف پا یاد نہیں ہے
افسردگی عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دل زدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
ہاں مٹ گۓ جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل
خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ہے
لیتے ہیں ترا نام ہی یوں جاگتے سوتے
جیسے کہ ہمیں اپنا خدا یاد نہیں ہے
یہ ایک ہی احسان غم دوست ہے کیا غم
بے مہری دوراں کی جفا یاد نہیں ہے
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوۓ بادل
جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے
اس بار وحیدؔ آپ کی آنکھیں نہیں برسیں
کیا جھومتی زلفوں کی گھٹا یاد نہیں ہے
——
نظم
اے خدا اے خدا
میں ہوں مصروف تسبیح و حمد و ثنا
گو بظاہر عبادت کی عادت نہیں ہے
رند مشرب ہوں زہد و ریاضت سے رغبت نہیں ہے
مگر جب بھی چلتا ہے میرا قلم
جب بھی کھلتی ہے میری زباں
کچھ کہوں کچھ لکھوں
تیری تخلیق کا زمزمہ مدعا منتہا
حرف جڑ کر بنیں لفظ تو کرتے ہیں تیری حمد و ثنا
یا خدا یا خدا
میرے اطراف ہیں پیٹ خالی بدن نیم جاں
کوئی تکتا ہے جب میرا دست تہی
شرم آتی ہے مجھ کو خدائے غنی
سوچتا ہوں میں اپنی زباں رہن رکھ دوں کہیں
رزق سے خالی پیٹوں کو بھر دوں
جو ہیں نیم جاں ان میں جان پھونک دوں
اور اپنے لیے تھوڑی آسائشیں مول لے آؤں بازار سے
اپنے بچوں کی ضد پوری کر دوں
جو واقف نہیں ہیں معیشت کے انداز و رفتار سے
پھر یہی سوچتا ہوں
خدا اے خدا
کیا زباں رہن ہو کر بھی تیری اطاعت کرے گی
کیا قلم بک کے بھی نام تیرا ہی لے گا
دوسروں کو خدا مان کر
وہ نہ کرنے لگیں ماسوا کی بھی حمد و ثنا
اے خدا اے خدا ہے دعا
آخری سانس تک
یہ قلم یہ زباں
لکھتے رہتے ہیں لاالہ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ