اُن لبوں تک اگر گیا ہو گا
شعر میرا نکھر گیا ہو گا
ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی
میری حالت سے ڈر گیا ہو گا
اعتباراُس کے دل سے دنیا کا
جانے کس بات پر گیا ہو گا؟
زہر پینے سے کون مرتا ہے
کوئی غم کام کرگیا ہو گا
پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے
کوئی زنجیر کر گیا ہو گا
برگ جھڑتے ہیں آنسوؤں کی طرح
موسمِ گل گزر گیا ہو گا
کتنا نکلا ہے سخت جاں یہ ضمیر
ہم تو سمجھے تھے مر گیا ہو گا
ناؤ ڈوبے مری زمانہ ہوا
اب تو دریا اُتر گیا ہو گا
تذکرہ میرا اُس کی محفل میں
سب کو خاموش کرگیا ہو گا
بازی ہارا ہے کب عدو سے ظہیرؔ
کچھ سمجھ کر ہی ہَر گیا ہو گا