آپ کا حُسنِ تصور لطف فرماتا رہا
میں مدینے کی طرف آتا رہا جاتا رہا
اِس طرف پڑھتا رہا میں جھوم کر نعتِ رسول
اُس طرف دریائے رحمت جوش میں آتا رہا
لوگ تیری راہ میں کانٹے بچھاتے ہی رہے
پھر بھی تُو لطف و کرم کے پھول برساتا رہا
آستانے سے ترے ملتی ہے راہِ مستقیم
تیرے در سے جو بھی بھٹکا ٹھوکریں کھاتا رہا
چلتے چلتے رُک گئی تھیں دو جہاں کی گردشیں
پر بُراقِ مصطفیٰ پرواز فرماتا رہا
پرچمِ لطفِ نبی تھا دم بدم سایہ فگن
ہر تلاطم یوں مری کشتی سے کتراتا رہا
دو جہاں کا بادشہ اور بوریے پہ بیٹھ کر
عرش کی باتیں زمیں والوں کو بتلاتا رہا
سُوئے یثرب کاروانِ شوق جاتا دیکھ کر
دیر تک اشکِ جلیؔ پلکوں پہ تھراتا رہا