اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں
کیوں نہ سرکار سے میں ہو کے الگ بات کروں
گنبدِ سبز کو آنکھوں سے جو کچھ کہنا ہو
بہتے اشکوں سے نظر دھو کے الگ بات کروں
بات تو کر لوں مگر پھر یہ خیال آتا ہے
کوئی صدّیق ہوں میں جو کے الگ بات کروں
سوچتا ہوں کہ خدو خالِ غمِ عقبٰی سے
ارضِ دل میں ترا غم بو کے الگ بات کروں
وہ بھی دن آئے کہ میں آپ سے اے فخرِ جہاں
دنیا والوں سے پرے ، سو کے الگ بات کروں
نعت کہتا رہوں ، یہ وقت نہ آئے آقا
تیرے قدموں کے نشاں کھو کے الگ بات کروں
وادئ خوابِ تبسم میں مرے مرکزِ دل
اپنی تصویر اتارو کہ الگ بات کروں