اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا

اب جو جاؤ در و دیوار بھی لیتے جانا

چھوڑ کر جا ہی رہے ہو تو پھر اپنے ہمراہ

ساتھ رہنے کا وہ اقرار بھی لیتے جانا

دکھ تو ہو گا مگر احساس ہو کم کم شاید

جاتے جاتے مرا پندار بھی لیتے جانا

بیخودی مجھ سے مری چھین کے جانے والے

آگہی کے کڑے آزار بھی لیتے جانا

جشنِ آزادیِ اظہار میں اے نغمہ گرو

میری زنجیر کی جھنکار بھی لیتے جانا

اُن سے ملنے کبھی جاؤ تو بطرزِ سوغات

مجھ سے مل کر مرے اشعار بھی لیتے جانا

بزم یاراں نہیں حاکم کی عدالت ہے ظہیرؔ

سر پر اُونچی کوئی دستار بھی لیتے جانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]