اے جانِ سخن ! حاصلِ گفتار ! کرم کر
لب دیر سے ہیں تشنۂ اظہار، کرم کر
اِک عُمر سے آنکھوں میں لیے خوابِ تمنا
جانے کو ہے اب تیرا یہ بیمار، کرم کر
تُو دل کے نہاں خانے میں آ ناز بہ انداز
یہ آنکھ تو ہے حائلِ دیدار، کرم کر
گو ہاتھ میں قیمت نہیں اُس گردِ سفر کی
اور ہُوں مَیں مدینے کا طلبگار، کرم کر
دیتے ہیں خبر تیرے ہی آنے کی مسلسل
کچھ کہتے ہوئے مجھ سے یہ آثار، کرم کر
اے میرے طرف دارِ عطا، میری خبر لے
اے میرے دل و جاں کے نگہدار، کرم کر
یہ نُطق، یہ خامہ، یہ حوالے، یہ مقالے
یہ تیری محبت کے ہیں پندار، کرم کر
ہاتھوں میں لیے مژدۂ جاءوک کا پرچم
آئے ہیں ترے در پہ خطا کار، کرم کر
مقصودؔ کی بس اتنی سی ہے عرضِ تمنا
سو بار کے مختار! بس اک بار کرم کر