اے محسنِ انساں تری سیرت کے میں صدقے
انوار سے جس کے ہوئے کردار منور
اوصاف و کمالات میں دیکھا ہی نہیں ہے
تخلیقِ دو عالم میں کوئی آپ کا ہمسر
رب نے بھی تجھے بھیج کے احسان جتایا
آمد سے تری حور و ملک جھوم رہے ہیں
دنیائے زمیں پر ہے بپا جشنِ بہاراں
عشاق تصور میں قدم چوم رہے ہیں
ہر حسن ترے حسن کے انوار کا پرتو
ہر آنکھ تمنائیء دیدار ہے تیری
ہر درد مٹا دیتاہے اِک تیرا تصور
سائل پہ عطا آج بھی غمخوار ہے تیری
ممکن ہی نہیں عقل میں آجائیں کسی کے
محبوبِ خدا تیری سخاوت کے سمندر
باندھے ہیں ترے فقر نے جب پیٹ پہ پتھر
انگشت بدنداں ہے جہاں مالکِ کوثر
وہ عزم کہ حیراں ہیں ملائک مرے آقا
وہ رُعب کہ ہے آج بھی کفار پہ طاری
جرأت سے سدا مدِ مقابل ہوئے لرزاں
ہر شورشِ دنیا پہ عَلم آپ کا بھاری
اُس حِلمِ مبارک کی یہ تاثیر بھی دیکھی
مغرور سبھی آپ کے قدموں میں پڑے ہیں
دل جیت لیے آپ کے اخلاق نے ایسے
جو دشمنِ جاں تھے وہ غلاموں میں کھڑے ہیں
اہداف ترے عقلِ بشر میں نہ سمائیں
افکار ترے دانش و حکمت کا ہیں جھومر
اعمال کا مقصود فقط رب کی رضا ہے
کردار کی خوشبو سے ہر اِک عہد معطر
الفاظ ترے فہم و فراست کے ہیں گلشن
اندازِ تکلم پہ ہیں قربان بہاریں
عالم بھی مفسر بھی محقق بھی بصد ناز
ادراک زمانے کا ترے نطق پہ واریں
اغیار بھی ہیں عدل کے معیار پہ واری
آئینِ مساوات پہ محکوم فدا ہیں
عالم میں یہ ممکن تھا کہاں آپ سے پہلے
شاہوں کے برابر جو کھڑے ان کے گدا ہیں
اخلاص و مروّت کا تو عالم ہی نہ پوچھو
طائف کے مظالم میں بھی رحمت کی اذاں ہے
خود فقر کا خوگر ہے مگر قاسمِ نعمت
گرچہ ہے تہی دست مگر ظِلِ جہاں ہے
جب فاتحِ مکہ بنا وہ فاتحِ عالم
ظالم تھے بڑے خوف میں آج اپنے کیے پر
پھر خُلق نے گھیرے میں لیا اہلِ جفا کو
پھر جود و کرم نے ترے کافور کیے ڈر
بے حدو حساب آپ کی عظمت کا سفر ہے
بے سمت مسافت مری کونین کے والی
بے انت عطائیں ہیں فقط آپ کو زیبا
بے باک شکیلؔ آپ سے بخشش کا سوالی