اردوئے معلیٰ

 

اے ہستی پاکِ کون و مکاں تو روحِ روانِ ہستی ہے

دنیا ہے یہ تیری منت کش تو ہے تو یہ بستی بستی ہے

 

وحدت کے خمستاں سے تیرے اک بار ہوا جو ساغر کش

تا حشر نہ اتری مستی پھر کچھ ایسے غضب کی مستی ہے

 

ہے تیری طلب ہی جانِ طلب اس کار گہِ دو روزہ میں

وہ آرزو تیری آرزو ہے جو سب کے دلوں میں بستی ہے

 

آہنگ بھرا اک نغمہ کا ہر پردۂ سازِ ہستی میں

اب کیفِ نوائے ہستی اک اب ایک نوائے ہستی ہے

 

سمجھیں کہ نہ سمجھیں اہلِ ہوس مانیں کہ نہ مانیں اہلِ غرض

حقاً ترے دینِ قیم کی ہر دین پہ بالادستی ہے

 

انوارِ خدا کا مرکز ہے وہ روضۂ انور صلِّ علیٰ

وہ شہرِ مدینہ کیا کہئے انوارِ خدا کی بستی ہے

 

اس رات کی باتیں جب سے سنیں معراج کا قصہ جب سے سنا

اس دن سے ہماری نظروں میں یہ اوجِ فلک بھی پستی ہے

 

اس درجہ بڑی وہ ہستی ہے ہستی نہیں اس سے کوئی بڑی

گر اس سے بڑی ہستی پوچھیں تو ایک خدا کی ہستی ہے

 

امت کی طرف محبوبِ خدا رحمت کی نظرؔ فرمائیں کہ اب

مائل بہ تنزل ہے ہر دن ہر گام بہ سمتِ پستی ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ