بخت جب کرب کے سائے میں ڈھلا ہو بابا

ہم فقیروں کی دعا ہے کہ بھلا ہو بابا

کیا پتہ اس کو ہو پچھتاوا بچھڑ جانے پہ

ہاتھ افسوس سے اس نے بھی ملا ہو بابا

اس کا کیا جس کو تپش تھوڑی لگے سورج کی

پاؤں جس شخص کا چھاؤں میں جلا ہو بابا

اس لئے مڑ کے کئی بار تلاشا یونہی

کیا خبر پیچھے مرے کوئی چلا ہو بابا

ہو بھی سکتا ہے یہ آنسو ہوں دکھاوا اس کا

اک کلاکار کی یہ جھوٹی کلا ہو بابا

عشق سے کہنا کہ اس کو تو رعایت دے دے

مجھ سا نازوں میں اگر کوئی پلا ہو بابا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]