بھیک ہر ایک کو سرکار سے دی جاتی ہے
خیر دشمن کی بھی جھولی میں بھری جاتی ہے
بہرِ حسنین بلا لیجیے طیبہ اب تو
ہجر میں عمر مری یونہی کٹی جاتی ہے
قلبِ مضطر درِ سرکار پہ فوراً پہنچا
جس گھڑی میں نے سنا بات سنی جاتی ہے
آرزو کب سے ہے جاؤں میں درِ آقا پر
مجھ سے دوری نہیں اب اور سہی جاتی ہے
چھوڑ کے آپ کا در جائے کہاں یہ زاہدؔؔ
آپ کے در پہ جبیں میری جھکی جاتی ہے