بہ تیغِ ابرو ، سرِ بلا کو قلم کریں گے
وہ جانِ ہستی مِرے غموں کو عدم کریں گے
کبھی نمازِ لقا سے کر کے ہمیں مشرف
وہ چشم نم کے وضو کدے کو حرم کریں گے
عطائے ناقص نہیں ہے شایان شان ان کے
کریم جب بھی کرم کریں گے ، اتم کریں گے
مقامِ انسانیت بتائیں گے عصرِ نو کو
یوں آج ہم مدحتِ جمیل الشیم کریں گے
کریں گے تذکار قدّ و زلف و دہان احمد
پئے الف لام میم ، دفعِ الم کریں گے
ہے طاقِ سینہ میں جن کے عشقِ رسول روشن
خزف کو شیشہ نظر سے وہ جام جم کریں گے
غلام چاہیں ترے تو چھاگل سمیٹے ساگر
کرم پہ آئیں تو ایک قطرے کو یم کریں گے
جنہوں نے گلشن کیا تھا نارِ خلیل کو ، وہ
مِری جحیمِ حیات کو بھی ارم کریں گے
اے رفع بخشِ جہاں ! جبھی یہ زبر بنے گا
اگر معظم کو آپ زیرِ قدم کریں گے