تارہ تارہ بکھر رہی ہے رات
دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات
ہاتھ میں کاسۂ فراق لئے
سر جھکائے گزر رہی ہے رات
کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی
سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات
میری آوارگی کے پہلو میں
کو بکو در بدر رہی ہے رات
اک دریچے سے راہ تکتی ہے
سہمی سہمی ہے، ڈر رہی ہے رات
آئنہ رو ہے منتظر کب سے
بال کھولے سنور رہی ہے رات
نیم روشن سی خوابگاہوں میں
بے لبادہ بکھر رہی ہے رات
برگِ عارض پہ صورتِ شبنم
قطرہ قطرہ اُتر رہی ہے رات
پھر تجھے بھولنے کی کوشش میں
جانے کیا یاد کر رہی ہے رات