تری ہی روحِ ازل کا پاکیزہ سلسلہ جسم تک رہا ہے
تجھی سے ہر سانس آ رہا ہے تجھی سے ہر دل دھڑک رہا ہے
تری توجہ سے موسموں کو ہُنر کی توفیق مل رہی ہے
کہ بیج میں رزق اتر رہا ہے ، ہرا بھرا کھیت پک رہا ہے
تری تجلی کے نور میں کائنات کو دیکھتی ہیں آنکھیں
ہر ایک چہرے کا عکس تیرے ہی آئینے سے جھلک رہا ہے
کہیں جو طائر چہک رہا ہے تری ہی کچھ بات ہو رہی ہے
تری ہی مہکار آ رہی ہے کہیں جو غنچہ چٹک رہا ہے
اُٹھا تھا ترے حضور دستِ دعا کا بالکل تہی پیالہ
بھری ہے یوں اوک چشمۂ فیضِ جاوداں سے ، چھلک رہا ہے
عجب نہیں ہے جو کر دے لبریز قطرہ قطرہ مرا سبوچہ
کہ تیری رحمت کا ابرِ نیساں صدف صدف میں ٹپک رہا ہے
عطا کر ( اس کو بڑی ضرورت ہے ) بادۂ معرفت کا ساغر
کہ آدمی اب شرابِ پندار کے اثر سے بہک رہا ہے
دکھا اِسے مستقیم رستہ ، اسے ہدایت نصیب فرما
شعور کے باوجود اس دور میں یہ ناداں بھٹک رہا ہے
ازل سے لاریب فیہ قائم ہے تُو ، ابد تک رہے گا قائم
خود اُس کا اپنا وجود مشکوک ہے جسے اس میں شک رہا ہے