تقویم کا پندار ہیں وہ سال تریسٹھ

پندار کا معیار ہیں وہ سال تریسٹھ

تحسین کی تجسیم ہیں ساعاتِ معالی

انوار بہ انوار ہیں وہ سال تریسٹھ

موقوف اُنہی پر ہے شرَف یابئ ہستی

کونین میں شہکار ہیں وہ سال تریسٹھ

معراجِ سکینت ہے وہی عرصۂ فرحاں

تسکینِ دلِ زار ہیں وہ سال تریسٹھ

سرشارِ عطا رکھتے ہیں احساسِ دُعا کو

فیضان کے ابحار ہیں وہ سال تریسٹھ

لا ریب کمالات کا منَہج ہے وہی عصر

عظمت کے نگہ دار ہیں وہ سال تریسٹھ

اب بھی اُسی قرن کی خیرات کے چرچے

کس درجہ کرم بار ہیں وہ سال تریسٹھ

ہر فوز کو اُن ہی سے ہے تصدیق کی حاجت

ہر اوج کا اظہار ہیں وہ سال تریسٹھ

مقصودؔ ! زمانے ہیں اُسی عصر کے مملوک

اور مالک و مختار ہیں وہ سال تریسٹھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]