توفیق ہو اے کاش بہم اور زیادہ
توصیفِ محمد ہو رقم اور زیادہ
یا رب ہو ترا مجھ پہ کرم اور زیادہ
دے عشقِ شہنشاہِ امم اور زیادہ
کرتے ہیں ترا ذکر جو ہم اور زیادہ
ہو جاتی ہے کم تلخی غم اور زیادہ
یاد آئے مجھے شاہِ حرم اور زیادہ
بڑھ اے خلشِ تیرِ ستم اور زیادہ
ممدوحِ خداوندِ جہاں ہے شہِ والا
کس کا ہے بھلا حسنِ شیم اور زیادہ
دیکھا نہیں شاید ابھی بُستانِ مدینہ
اترائے نہ گلزارِ ارم اور زیادہ
بس ختم ہے سب جاہ و حشم ختمِ رسل پر
دیکھا نہ سنا جاہ و حشم اور زیادہ
ہے دل میں نہاں آرزوئے دیدِ مدینہ
دل کھچنے لگا سوئے حرم اور زیادہ
سب آبلہ پا کہتے ہیں یہ جادۂ حق میں
ملتے ہیں ترے نقشِ قدم اور زیادہ
کر روضۂ انور کی زیارت سے مشرف
ڈسنے لگی اب تو شبِ غم اور زیادہ
عاصی ہے نظرؔ روزِ جزا اس پہ توجہ
اے صاحبِ الطاف و کرم اور زیادہ