تِری حمد میں کیا کروں اے خُدا

مِرا علم کیا ہے، مِری فکر کیا

میں ہُوں بے خبر، تو خبیر و علیم

میں حادث ہُوں اور ذات تیری قدیم

مکاں ہے تِرا، لامکاں ہے تِرا

زمیں ہے تِری، آسماں ہے تِرا

تجھی سے صبا ہے تجھی سے سموم

زمیں پر ہے گل ،آسماں پر نجوم

ضیائے رُخ زندگی، تجھ سے ہے

جہاں بھی ہے رخشندگی تُجھ سے ہے

محیطِ دو عالم ہے قدرت تِری

ہے کثرت کے پردے میں وحدت تری

تِرے زمزمے آبشاروں میں ہیں

تِری عظمت کو ہساروں میں ہے

انکسار عجز خلوص اور اللہ تعالی کے مقابلے میں انسان کی مکمل بے بسی اور اس کے باوجود اسی کے ساتھ ساری امیدوں کی وابستگی وہ معیار ہے جو اس حمدیہ کلام کے انتخاب میں میرا معیار رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]