تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا
میری قسمت جگانا تیرا کام ہے
میری آنکھوں کو ہے دید کی آرزو
رخ سے پردہ اٹھانا تیرا کام تھا
تیری چوکھٹ کہاں اور کہاں یہ جبیں
تیرے فیضِ کرم کی تو حد ہی نہیں
جس کو دنیا میں نہ کوئی اپنا کہے
اس کو اپنا بنانا تیرا کام ہے
باڑا بٹتا ہے سلطان کونین کا
صدقہ مولا علی صدقہ حسنین کا
صدقہ خواجہ پیا غوث السقلین کا
حاضری ہوگئی یہ بھی انعام ہے
میرے دل میں تیری یاد کا راج ہے
ذہن تیرے تصور کا محتاج ہے
اک نگاہِ کرم ہی میری لاج ہے
لاج میری نباہنا تیرا کام ہے
پیش ہر آرزو ہر تمنا کروں
تھام لو جالیاں التجائیں کرو
مانگنے والو دامن کشادہ کرو
کملی والے کا فیضِ کرم عام ہے