ثنائے ربِ جلیل ہے اور روشنی ہے

نبی کا ذکرِ جمیل ہے اور روشنی ہے

جہاں جہاں بھی حضور اکرم نے پاؤں رکھا

قدم قدم اک دلیل ہے اور روشنی ہے

چہار سُو ہے کبوتروں کا حصارِا بیض

سفید سی اک فصیل ہے اور روشنی ہے

حیات کی یا ممات کی آزمائشیں ہوں

وہی کفیل و وکیل ہے اور روشنی ہے

وہیں پہنچ کر خدا سے ہوں گے قریب تر ہم

جہاں خدا کا خلیل ہے اور روشنی ہے

میں تشنگی اور تیرگی کا ڈسا ہوا ہوں

وہ میٹھے پانی کی جھیل ہے اور روشنی ہے

حیاتِ احمد کا لمحہ لمحہ ، مرے سفر میں

نفس نفس سنگِ میل ہے اور روشنی ہے

میں ایک کشکول بن کے خیرات کا ہوں طالب

اُدھر عطا کی سبیل ہے اور روشنی ہے

اَزّل سے جو موجزن ہے آبِ رواں کی صورت

درود کا رودِ نیل ہے اور روشنی ہے

نسیم لب پر جو اُن کی مدحت کے گل کھلے ہیں

سخن کی اک سلسبیل ہے اور روشنی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]