جب شعر ہُوا اسمِ محمد سے مُرصّع
قرطاس ہُوا طلعتِ بے حد سے مُرصّع
کونین کو ہے حاجتِ نعلینِ مقدس
مابین بھی ہے لطف گہِ ید سے مُرصّع
تب جا کے مِلا اشرفِ تخلیق کا منصب
جب خَلق ہُوئی تیرے اب و جد سے مُرصّع
ہر ایک تمدّن تری سیرت سے ہی اجلا
تہذیب ترے سروِ قدُس قد سے مُرصّع
کیا جھُومے گی اُس منظرِ دلکش میں مری قبر
ہو جائے گی جب آپ کی آمد سے مُرصّع
آنکھوں کو ہے اب خواہشِ دیدارِ مدینہ
دل پہلے سے ہے آپ کی مسند سے مُرصّع
مسجد ہے ترے گنبدِ اخضر سے منقّش
روضہ ہے ترے حُجرۂ مرقد سے مُرصّع
میثاق تو تھا آپ کی نصرت کا وظیفہ
مجلس ہوئی تھی آپ کے مقصد سے مُرصّع
معراج سے اِک یہ بھی تھا مقصودؔ خدا کا
ہو عرش بھی دیدِ رخِ احمد سے مُرصّع