جس وقت مجھ پہ رحمت رب العلیٰ ہوئی
تفویض مجھ کو مدحتِ خیر الوریٰ ہوئی
اشکوں میں جب ڈھلی مجھے معلوم ہو گیا
مقبول بارگاہ میں میری ثنا ہوئی
سجدہ سمجھ لیا مرا قدموں کو چومنا
لوگوں کو حق سمجھنے میں اکثر خطا ہوئی
جو ہے رسولِ پاک کے جلوؤں سے مستنیر
جی جاں سے اُس پہ خلق خدا ہے فدا ہوئی
چومے انگوٹھے جس نے محمد کے نام پر
آشوبِ چشم سے اُسے فوری شفا ہوئی
مجھ کو بھی چُن لیا گیا توصیف کے لیے
مجھ بے ہنر پہ دیکھیے کیسی عطا ہوئی
نظریں اُٹھیں حبیب کی قبلہ بدل گیا
جو تھی رضا نبی کی وہ ربّ کی رضا ہوئی
تعظیم جس نے سیّدہ کے گل رخوں کی کی
رحمت خدا کی اس پہ ہے صبح و مسا ہوئی
یا مصطفی! نگاہِ کرم بہرِ سیّدہ
اُمت ہے پھر سے آپ کی بے آسرا ہوئی
تھامے رکھی تو زندگی گل سے حسیں رہی
چھوڑی جو سنتِ نبی ہستی فنا ہوئی
اُمت کو تیری بخش دیا تیرے نام پر
عرش علیٰ سے خاص یہ ازہرؔ ندا ہوئی