آج نامور انشا پرداز، مورخ، شاعر، نقاد اور ماہر تعلیم محمد حسین آزاد کا یوم پیدائش ہے

نوٹ : تاریخِ پیدائش کتاب احوال و آثار ، محمد حسین آزاد از محمد صادق ، شائع شدہ 1976 ء ، اور کتاب مونوگراف ، محمد حسین آزاد از عتیق اللہ ، شائع شدہ 2008 ء سے لی گئی ہے ۔
——
اردو ادب میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس نے دیوانگی اور جنون کی کیفیت میں بھی وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ عالم فرزانگی میں بہت سے لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس نے نہ صرف اردو نژ کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی۔ اسی شخص نے نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ موضوعی مشاعرے کی بنیاد ڈالی، مجلسی تنقید کی روایت کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اردو زبان کی پیدائش کا نظریہ پیش کیا اور برج بھاشا کو اردو زبان کا منبع و ماخذ قرار دیا۔ جس نے اردو کے فروغ کے لیے بدیسی زبانوں خاص طور پر انگریزی سے استفادہ پر زور دیا۔ اس نے اردو شاعری کے مزاج کو بدلا اور مقصدیت، افادیت سے اس کا رشتہ جو ڑا۔ جس نے ادبی تاریخ نویسی کو ایک نئی جہت دی۔ اور ’’آب حیات‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی تاریخ لکھی کہ اس کی ابدی زندگی کی ضمانت بن گئی۔ اس گراں مایہ شخصیت کا نام محمد حسین آزاد ہے۔
محمد حسین آزاد کی پیدایش 5، مئی 1830 عیسوی کو دہلی میں ہوئی ان کے والد مولوی محمد باقر شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ ان کا اپنا پریس تھا۔ اپنا ا’مام باڑہ‘ مسجد اور سرائے تھی۔ یہ اردو کے پہلے شہید صحافی تھے۔ انہیں مسٹر ٹیلر کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مولوی محمد حسین آزاد جب چار برس کے تھے سبھی ان کے ایرانی النسل والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی پھوپی نے پرورش کی، وہ بھی بہت جلد انتقال کر گئیں۔ محمد حسین آزاد کے ذہن پر ان صدموں کا گہرا اثر پڑا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ناز خیالوی کا یوم پیدائش اور یومِ وفات
——
آزاد ؔ دلی کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ملک کے حالات بگڑنے لگے اپنے والد مولوی محمد باقر کی گرفتاری کے بعد سے ہی محمد حسین آزاد کی حالت اور خراب ہونے لگی۔ وہ ادھر ادھر چھپتے چھپاتے رہے۔ تقریباً دو ڈھائی برس بڑی مشقتوں سے کاٹے۔ کچھ دنوں اپنے کنبہ کے ساتھ لکھنؤ میں بھی رہے۔ پھر کسی طرح لاہور وارد ہوئے جہاں جنرل پوسٹ آفس لاہور میں سرنوشت دار کے عہدے پر ان کی تقرری ہو گئی۔ تین سال کام کرنے کے بعد ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کے دفتر میں انہیں ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد جب’ انجمن پنجاب‘ کا قیام عمل میں آیا تو محمد حسین آزاد کی قسمت کے دروازے کھل گئے۔ ڈاکٹر لاءئنز کی کوششوں اور محبتوں کی وجہ سے آزادؔ انجمن پنجاب کے سکریٹری مقرر کر دیے گئے۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے کا بھرپور موقع ملا۔ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی پروفیسر کی حیثیت سے ان کی عارضی تقرری ہو گئی اور پھر اسی عہدے پر مستقل کر دے گئے۔
ایک اچھی ملازمت سے وابستگی نے آزادؔ کو ذہنی سکون عطا کیا۔ اور پھر ان کے سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے وسط ایشیا کا سفر کیا، وہاں انہیں بہت کچھ نیا سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ سیاحت نے ان کے ذہنی افق کو بہت وسعت بخشی۔ انہوں نے اپنے سفر کے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند بھی کیا۔ ’سیر ایران‘ ان کا ایساہی ایک سفرنامہ ہے جس میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کے پیارے وطن کے بارے میں اپنی تلخ اور شیرین یادوں کہ جمع کر دیا ہے۔
محمد حسین آزاد نے اردو دنیا کو بہت گران قدر تصنیفات دی ہیں۔ ان میں سخن داں فارسی، قصص ہند، دربار اکبری، نگارستان فارس، سیر ایران، دیوان ذوقؔ اور نیرگ خیال کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ نصابی کتابوں میں اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب، قواعد اردو اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر محمد حسین آزادؔ کو سب سے زیادہ شہرت ’آب حیات‘ سے ملی کہ یہ واحد ایسی کتاب ہے جس میں اردو شاعری کی صرف تاریخ یا تذکرہ نہیں ہے بلکہ اہم لسانی مباحث بھی ہیں اس میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر بحث ہے۔ اس کتاب نے اردو تنقید کو نقش اول بھی عطا کیا ہے۔ اس میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نثر کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : دل آپ کی خوشبو سے ہے آباد نبی جی
——
آزادؔ ایک اہم انشاپرداز، ناقد اور محقق بھی تھے انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور نشو ونما، اصلیت زبان پر تحقیقی مضامین بھی لکھے ۔
محمد حسین آزاد نظم کے اولین شاعروں میں بھی ہیں جنہوں نے صرف نظمیں لکھیں بلکہ نظم نگاری کو ایک نئی جہت بھی عطا کی اردو نثر اور نظم کو نیا مزاج عطا کرنے والے محمد حسین آزاد پر آخری وقت میں جنون اور دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ جنون کی حالت میں ہی ان کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وجہ سے آزادؔ کا اضمحلال اور بڑھتا گیا۔ آخر کار ۲۲؍ جنوری ۱۹۱۰ عیسوی میں آزاد ۹۶ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔
محمد حسین آزادؔ نے اپنی زندگی کا سفر انگریزوں کی مخالفت سے شروع کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے اخبار میں انگریزوں کے خلاف سخت مضامین لکھتے رہتے تھے۔ مخالفت کی پاداش میں جب انگریزوں نے ان کے والد کو موت کے کھاٹ اتار دیا وہیں زاویہ تقرری تبدیلی کی وجہ سے علم دوست انگریزوں نے محمد حسین آزادؔ کو حیات جاودانی عطا کر دی اور انہیں شمس العلماکا خطاب بھی عطا کیا۔
——
منتخب کلام
——
کس نظر سے تھا رکھا ظالم نے پیکاں تیر میں
بوند ہو کر آہ اُترا ہے دلِ لگیر میں
——
غنچہ چمن میں بزم میں تصویر بول اُٹھے
منہ سے اگر وہ عالمِ تصویر بول اُٹھے
——
میں وہ نہیں ہوں کہ ہوں تجھ میں اور تو ہو کہیں
وہ گل کھلوں کہ ہوں گلبدن پہ اور بو ہو کہیں
——
ہوا لیلیٰ پہ مجنوں کوہکن شیریں پہ سودائی
محبت دل کا اک سودا ہے ، جس کی جس سے بن آئی
——
بے قراری نے کچھ کیا نہ صبر
ہم بھی اب صبر کیے بیٹھے ہیں
——
یہاں تو آج تک اچھی ہی گزری
مگر ہے فکر کل کی آبرو کی
زباں ہے پاک ہر دم نام حق لے
نہیں عاشق کو کچھ حاجت وضو کی
——
میرے سینے میں تری آہوں کے پیکاں رہ گئے
کچھ تو آہوں میں گئے کچھ ہو کے پیکاں رہ گئے
صبح کس رفتار سے آئے تھے تم گلزار سے
جس روش پر تھے وہیں سرو خراماں رہ گئے
اپنے رُتبے کو گھٹا کر پھر سے اہلِ کمال
پھر بھی کچھ قیمت نہ پائی ، ہو کے ارزاں رہ گئے
حسن لب سے ہے تبسم کہہ رہا دیکھو ادھر
ہو گئے روپوش موتی ، لعل و مرجاں رہ گئے
شمع رو سب دیکھتے تھے حسن کے شعلہ کو رات
ہم نے آئینہ دکھایا جب تو حیراں رہ گئے
——
جو نالوں سے مرے دل کے تہ و بالا جہاں ہوتا
تو پھر نیچے زمیں ہوتی نہ اوپر آسماں ہوتا
بلا سے دشمنِ جانی مرا سارا جہاں ہوتا
کسی صورت سے اے جانِ جہاں تو جانِ جاں ہوتا
بغل میں گُل کے بلبل شاخِ گل پر آشیاں ہوتا
جو ہوتا دوست گلچیں یار اپنا باغباں ہوتا
تماشا جاں نثاری کا تو جب تھا دید کے قابل
کہ بے جں نیمچے سے تیرے تیرا نیم جاں ہوتا
یقیں ہے گر دلِ نالاں مرا اک جا مکیں ہوتا
تو جس جا ہے مکان ہوتا ، وہاں پر لامکاں ہوتا
تمہارے بے دلوں کی خاک اگر صرفِ چمن ہوتی
تو ہر اک شاخِ گُل پر جائے غنچۂ گل عیاں ہوتا
جو کوئی چوٹ دل کی ساتھ تیشہ کے اثر کرتی
تو جائے آب ہر چشمہ سے شیریں خوں رواں ہوتا
دلِ نالاں جرس کی طرح آجاتا ہے جنبش میں
رواں سینہ سے جب ہے آنسوؤں کا کارواں ہوتا
جو محنت گاہِ دنیا میں نہ ہوتی موت کی فرصت
تو غافل صرفِ آسائش نہ یاں ہوتا نہ واں ہوتا
صنم ہے گردشِ عالم نگاہِ مہر سے تیری
اگر تو مہرباں ہوتا تو عالم مہرباں ہوتا
خدا کے واسطے آزادؔ روکو نالۂ دل کو
کہ کوئی آن میں کون و مکاں ہے لامکاں ہوتا
——
مری پیاری اماں
نہ کچھ مجھ میں طاقت تھی جس آن اماں
نہ اچھے برے کی تھی پہچان اماں
تمہیں سب طرح تھیں نگہبان اماں
تمہیں کو تھا ہر دم مرا دھیان اماں
مری پیاری اماں مری جان اماں
مجھے پیار سے دودھ تم نے پلایا
تھپک کر محبت سے تم نے سلایا
بہت دن مجھے گودیوں میں پھرایا
مجھے سکھ دیا آپ ہے دکھ اٹھایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
کبھی اپنی گودی میں مجھ کو لٹانا
کبھی میٹھی باتوں سے مجھ کو ہنسانا
کبھی پیار کرنا گلے سے لگانا
نہ بھولوں گا میں عمر بھر وہ زمانہ
مری پیاری اماں مری جان اماں
جو دکھ سے کبھی نیند مجھ کو نہ آئی
تو اس فکر میں رات تم نے گنوائی
کبھی کچھ دوائی کھلائی پلائی
کبھی کوئی میٹھی سی لوری سنائی
مری پیاری اماں مری جان اماں
تمہیں نے ہے اچھا طریقہ سکھایا
تمہیں نے ہے رستہ خدا کا بتایا
تمہیں نے گناہوں سے مجھ کو بچایا
تمہیں نے مجھے آدمی ہے بنایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
بہت کی مرے ساتھ تم نے محبت
اٹھائی مرے واسطے سخت محنت
اگر دے خدا مجھ کو عمر اور دولت
تمہاری بجا لاؤں ہر طرح خدمت
مری پیاری اماں مری جان اماں
——
محنت کرو
ہے امتحاں سر پر کھڑا محنت کرو محنت کرو
باندھو کمر بیٹھے ہو کیا محنت کرو محنت کرو
بے شک پڑھائی ہے سوا اور وقت ہے تھوڑا رہا
ہے ایسی مشکل بات کیا محنت کرو محنت کرو
شکوے شکایت جو کہ تھے تم نے کہے ہم نے سنے
جو کچھ ہوا اچھا ہوا محنت کرو محنت کرو
محنت کرو انعام لو انعام پر اکرام لو
جو چاہو گے مل جائے گا محنت کرو محنت کرو
جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو انہیں للکار کر
ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو
تدبیریں ساری کر چکے باتوں کے دریا بہہ چکے
بک بک سے اب کیا فائدہ محنت کرو محنت کرو
یہ بیج اگر ڈالوگے تم دل سے اسے پا لو گے تم
دیکھو گے پھر اس کا مزا محنت کرو محنت کرو
محنت جو کی جی توڑ کر ہر شوق سے منہ موڑ کر
کر دو گے دم میں فیصلہ محنت کرو محنت کرو
کھیتی ہو یا سوداگری ہو بھیک ہو یا چاکری
سب کا سبق یکساں سنا محنت کرو محنت کرو
جس دن بڑے تم ہو گئے دنیا کے دھندوں میں پھنسے
پڑھنے کی پھر فرصت کجا محنت کرو محنت کرو
بچپن رہا کس کا بھلا انجام کو سوچو ذرا
یہ تو کہو کھاؤ گے کیا محنت کرو محنت کرو
——
شعری انتخاب(کتاب نظم آزاد صفحہ نمبر 120 تا 164) از اردوئے معلیٰ انتظامیہ
——
اردو ادب میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس نے دیوانگی اور جنون کی کیفیت میں بھی وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ عالم فرزانگی میں بہت سے لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس نے نہ صرف اردو نژ کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی۔ اسی شخص نے نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ موضوعی مشاعرے کی بنیاد ڈالی، مجلسی تنقید کی روایت کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اردو زبان کی پیدائش کا نظریہ پیش کیا اور برج بھاشا کو اردو زبان کا منبع و ماخذ قرار دیا۔ جس نے اردو کے فروغ کے لیے بدیسی زبانوں خاص طور پر انگریزی سے استفادہ پر زور دیا۔ اس نے اردو شاعری کے مزاج کو بدلا اور مقصدیت، افادیت سے اس کا رشتہ جو ڑا۔ جس نے ادبی تاریخ نویسی کو ایک نئی جہت دی۔ اور ’’آب حیات‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی تاریخ لکھی کہ اس کی ابدی زندگی کی ضمانت بن گئی۔ اس گراں مایہ شخصیت کا نام محمد حسین آزاد ہے۔
محمد حسین آزاد کی پیدایش 5، مئی 1830 عیسوی کو دہلی میں ہوئی ان کے والد مولوی محمد باقر شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ ان کا اپنا پریس تھا۔ اپنا ا’مام باڑہ‘ مسجد اور سرائے تھی۔ یہ اردو کے پہلے شہید صحافی تھے۔ انہیں مسٹر ٹیلر کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مولوی محمد حسین آزاد جب چار برس کے تھے سبھی ان کے ایرانی النسل والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی پھوپی نے پرورش کی، وہ بھی بہت جلد انتقال کر گئیں۔ محمد حسین آزاد کے ذہن پر ان صدموں کا گہرا اثر پڑا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ناز خیالوی کا یوم پیدائش اور یومِ وفات
——
آزاد ؔ دلی کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ملک کے حالات بگڑنے لگے اپنے والد مولوی محمد باقر کی گرفتاری کے بعد سے ہی محمد حسین آزاد کی حالت اور خراب ہونے لگی۔ وہ ادھر ادھر چھپتے چھپاتے رہے۔ تقریباً دو ڈھائی برس بڑی مشقتوں سے کاٹے۔ کچھ دنوں اپنے کنبہ کے ساتھ لکھنؤ میں بھی رہے۔ پھر کسی طرح لاہور وارد ہوئے جہاں جنرل پوسٹ آفس لاہور میں سرنوشت دار کے عہدے پر ان کی تقرری ہو گئی۔ تین سال کام کرنے کے بعد ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کے دفتر میں انہیں ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد جب’ انجمن پنجاب‘ کا قیام عمل میں آیا تو محمد حسین آزاد کی قسمت کے دروازے کھل گئے۔ ڈاکٹر لاءئنز کی کوششوں اور محبتوں کی وجہ سے آزادؔ انجمن پنجاب کے سکریٹری مقرر کر دیے گئے۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے کا بھرپور موقع ملا۔ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی پروفیسر کی حیثیت سے ان کی عارضی تقرری ہو گئی اور پھر اسی عہدے پر مستقل کر دے گئے۔
ایک اچھی ملازمت سے وابستگی نے آزادؔ کو ذہنی سکون عطا کیا۔ اور پھر ان کے سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے وسط ایشیا کا سفر کیا، وہاں انہیں بہت کچھ نیا سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ سیاحت نے ان کے ذہنی افق کو بہت وسعت بخشی۔ انہوں نے اپنے سفر کے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند بھی کیا۔ ’سیر ایران‘ ان کا ایساہی ایک سفرنامہ ہے جس میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کے پیارے وطن کے بارے میں اپنی تلخ اور شیرین یادوں کہ جمع کر دیا ہے۔
محمد حسین آزاد نے اردو دنیا کو بہت گران قدر تصنیفات دی ہیں۔ ان میں سخن داں فارسی، قصص ہند، دربار اکبری، نگارستان فارس، سیر ایران، دیوان ذوقؔ اور نیرگ خیال کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ نصابی کتابوں میں اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب، قواعد اردو اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر محمد حسین آزادؔ کو سب سے زیادہ شہرت ’آب حیات‘ سے ملی کہ یہ واحد ایسی کتاب ہے جس میں اردو شاعری کی صرف تاریخ یا تذکرہ نہیں ہے بلکہ اہم لسانی مباحث بھی ہیں اس میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر بحث ہے۔ اس کتاب نے اردو تنقید کو نقش اول بھی عطا کیا ہے۔ اس میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نثر کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : دل آپ کی خوشبو سے ہے آباد نبی جی
——
آزادؔ ایک اہم انشاپرداز، ناقد اور محقق بھی تھے انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور نشو ونما، اصلیت زبان پر تحقیقی مضامین بھی لکھے ۔
محمد حسین آزاد نظم کے اولین شاعروں میں بھی ہیں جنہوں نے صرف نظمیں لکھیں بلکہ نظم نگاری کو ایک نئی جہت بھی عطا کی اردو نثر اور نظم کو نیا مزاج عطا کرنے والے محمد حسین آزاد پر آخری وقت میں جنون اور دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ جنون کی حالت میں ہی ان کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وجہ سے آزادؔ کا اضمحلال اور بڑھتا گیا۔ آخر کار ۲۲؍ جنوری ۱۹۱۰ عیسوی میں آزاد ۹۶ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔
محمد حسین آزادؔ نے اپنی زندگی کا سفر انگریزوں کی مخالفت سے شروع کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے اخبار میں انگریزوں کے خلاف سخت مضامین لکھتے رہتے تھے۔ مخالفت کی پاداش میں جب انگریزوں نے ان کے والد کو موت کے کھاٹ اتار دیا وہیں زاویہ تقرری تبدیلی کی وجہ سے علم دوست انگریزوں نے محمد حسین آزادؔ کو حیات جاودانی عطا کر دی اور انہیں شمس العلماکا خطاب بھی عطا کیا۔
——
منتخب کلام
——
کس نظر سے تھا رکھا ظالم نے پیکاں تیر میں
بوند ہو کر آہ اُترا ہے دلِ لگیر میں
——
غنچہ چمن میں بزم میں تصویر بول اُٹھے
منہ سے اگر وہ عالمِ تصویر بول اُٹھے
——
میں وہ نہیں ہوں کہ ہوں تجھ میں اور تو ہو کہیں
وہ گل کھلوں کہ ہوں گلبدن پہ اور بو ہو کہیں
——
ہوا لیلیٰ پہ مجنوں کوہکن شیریں پہ سودائی
محبت دل کا اک سودا ہے ، جس کی جس سے بن آئی
——
بے قراری نے کچھ کیا نہ صبر
ہم بھی اب صبر کیے بیٹھے ہیں
——
یہاں تو آج تک اچھی ہی گزری
مگر ہے فکر کل کی آبرو کی
زباں ہے پاک ہر دم نام حق لے
نہیں عاشق کو کچھ حاجت وضو کی
——
میرے سینے میں تری آہوں کے پیکاں رہ گئے
کچھ تو آہوں میں گئے کچھ ہو کے پیکاں رہ گئے
صبح کس رفتار سے آئے تھے تم گلزار سے
جس روش پر تھے وہیں سرو خراماں رہ گئے
اپنے رُتبے کو گھٹا کر پھر سے اہلِ کمال
پھر بھی کچھ قیمت نہ پائی ، ہو کے ارزاں رہ گئے
حسن لب سے ہے تبسم کہہ رہا دیکھو ادھر
ہو گئے روپوش موتی ، لعل و مرجاں رہ گئے
شمع رو سب دیکھتے تھے حسن کے شعلہ کو رات
ہم نے آئینہ دکھایا جب تو حیراں رہ گئے
——
جو نالوں سے مرے دل کے تہ و بالا جہاں ہوتا
تو پھر نیچے زمیں ہوتی نہ اوپر آسماں ہوتا
بلا سے دشمنِ جانی مرا سارا جہاں ہوتا
کسی صورت سے اے جانِ جہاں تو جانِ جاں ہوتا
بغل میں گُل کے بلبل شاخِ گل پر آشیاں ہوتا
جو ہوتا دوست گلچیں یار اپنا باغباں ہوتا
تماشا جاں نثاری کا تو جب تھا دید کے قابل
کہ بے جں نیمچے سے تیرے تیرا نیم جاں ہوتا
یقیں ہے گر دلِ نالاں مرا اک جا مکیں ہوتا
تو جس جا ہے مکان ہوتا ، وہاں پر لامکاں ہوتا
تمہارے بے دلوں کی خاک اگر صرفِ چمن ہوتی
تو ہر اک شاخِ گُل پر جائے غنچۂ گل عیاں ہوتا
جو کوئی چوٹ دل کی ساتھ تیشہ کے اثر کرتی
تو جائے آب ہر چشمہ سے شیریں خوں رواں ہوتا
دلِ نالاں جرس کی طرح آجاتا ہے جنبش میں
رواں سینہ سے جب ہے آنسوؤں کا کارواں ہوتا
جو محنت گاہِ دنیا میں نہ ہوتی موت کی فرصت
تو غافل صرفِ آسائش نہ یاں ہوتا نہ واں ہوتا
صنم ہے گردشِ عالم نگاہِ مہر سے تیری
اگر تو مہرباں ہوتا تو عالم مہرباں ہوتا
خدا کے واسطے آزادؔ روکو نالۂ دل کو
کہ کوئی آن میں کون و مکاں ہے لامکاں ہوتا
——
مری پیاری اماں
نہ کچھ مجھ میں طاقت تھی جس آن اماں
نہ اچھے برے کی تھی پہچان اماں
تمہیں سب طرح تھیں نگہبان اماں
تمہیں کو تھا ہر دم مرا دھیان اماں
مری پیاری اماں مری جان اماں
مجھے پیار سے دودھ تم نے پلایا
تھپک کر محبت سے تم نے سلایا
بہت دن مجھے گودیوں میں پھرایا
مجھے سکھ دیا آپ ہے دکھ اٹھایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
کبھی اپنی گودی میں مجھ کو لٹانا
کبھی میٹھی باتوں سے مجھ کو ہنسانا
کبھی پیار کرنا گلے سے لگانا
نہ بھولوں گا میں عمر بھر وہ زمانہ
مری پیاری اماں مری جان اماں
جو دکھ سے کبھی نیند مجھ کو نہ آئی
تو اس فکر میں رات تم نے گنوائی
کبھی کچھ دوائی کھلائی پلائی
کبھی کوئی میٹھی سی لوری سنائی
مری پیاری اماں مری جان اماں
تمہیں نے ہے اچھا طریقہ سکھایا
تمہیں نے ہے رستہ خدا کا بتایا
تمہیں نے گناہوں سے مجھ کو بچایا
تمہیں نے مجھے آدمی ہے بنایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
بہت کی مرے ساتھ تم نے محبت
اٹھائی مرے واسطے سخت محنت
اگر دے خدا مجھ کو عمر اور دولت
تمہاری بجا لاؤں ہر طرح خدمت
مری پیاری اماں مری جان اماں
——
محنت کرو
ہے امتحاں سر پر کھڑا محنت کرو محنت کرو
باندھو کمر بیٹھے ہو کیا محنت کرو محنت کرو
بے شک پڑھائی ہے سوا اور وقت ہے تھوڑا رہا
ہے ایسی مشکل بات کیا محنت کرو محنت کرو
شکوے شکایت جو کہ تھے تم نے کہے ہم نے سنے
جو کچھ ہوا اچھا ہوا محنت کرو محنت کرو
محنت کرو انعام لو انعام پر اکرام لو
جو چاہو گے مل جائے گا محنت کرو محنت کرو
جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو انہیں للکار کر
ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو
تدبیریں ساری کر چکے باتوں کے دریا بہہ چکے
بک بک سے اب کیا فائدہ محنت کرو محنت کرو
یہ بیج اگر ڈالوگے تم دل سے اسے پا لو گے تم
دیکھو گے پھر اس کا مزا محنت کرو محنت کرو
محنت جو کی جی توڑ کر ہر شوق سے منہ موڑ کر
کر دو گے دم میں فیصلہ محنت کرو محنت کرو
کھیتی ہو یا سوداگری ہو بھیک ہو یا چاکری
سب کا سبق یکساں سنا محنت کرو محنت کرو
جس دن بڑے تم ہو گئے دنیا کے دھندوں میں پھنسے
پڑھنے کی پھر فرصت کجا محنت کرو محنت کرو
بچپن رہا کس کا بھلا انجام کو سوچو ذرا
یہ تو کہو کھاؤ گے کیا محنت کرو محنت کرو
——
شعری انتخاب(کتاب نظم آزاد صفحہ نمبر 120 تا 164) از اردوئے معلیٰ انتظامیہ