اردوئے معلیٰ

جس کا جو شغل ہے رہتا ہے اسی میں مشغول

ہے خوشا دل کو مرے مشغلۂ نعتِ رسول

 

عالموں سے بھی سنا اور یہی ہے منقول

آپ ہیں علتِ غائی یہ جہاں ہے معلول

 

مرحبا خالقِ اکبر سے ثنا ہے منقول

اللہ اللہ رے اخلاقِ رسولِ مقبول

 

وہ صحیفہ کے ہے موسوم بنامِ قرآں

اہلِ عالم کو ہوا آپ کے ہاتھوں موصول

 

میں سخن ساز نہیں آپ کا ایک ایک سخن

دل نشیں پُر اثر و صاف و مدلل معقول

 

دین تیرا کہ ہوا دہر میں جب جلوہ فشاں

سارے ادیان ہوئے سامنے اس کے مجہول

 

فوج باطل کی نہ ٹھہری ترے آگے زنہار

ضربتِ حق سے رہی ہو کے ‘کعصفٍ مَاکول’

 

پیشِ رب سجدہ گزاری کی تجھے تھی عادت

کاٹنا رات کا آنکھوں میں ترا تھا معمول

 

بحرِ ذخار ہے طوفاں ہے بھنور ہے آقا

اور ایسے میں سفینہ ہے مرا بے مستول

 

آپ فرمائیں دعا امتِ عاصی کے لئے

ہر دعا آپ کی امت کے لئے ہے مقبول

 

میرے آقا ترے دامن میں ملے مجھ کو پناہ

روزِ محشر یہ تمنا ہے رہوں نا مسؤل

 

سیرتِ پاک رہے میری نظرؔ کا مرکز

دینِ قیم پہ رہے میرے توجہ مبذول

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ