اردوئے معلیٰ

جلا کے رکھے ہیں توصیفِ مصطفیٰ کے چراغ

ہوائے تیز دکھائے ذرا بُجھا کے چراغ

 

وہی ہے عشقِ پیمبر کے کارواں کا امیر

وہ جس کے قلب میں جلتے رہیں وفا کے چراغ

 

جو فتح چاہو تو رکھو جلا کے ساتھ اپنے

حدیثِ شہ کے ‘فرامینِ ذوالعلیٰ کے چراغ

 

یہ آج دین کا چہرہ چمک رہا ہے تو کیوں ؟

کیے ہوئے اِسے روشن ہیں کر بلا کے چراغ

 

نہیں ہے کچھ بھی مِرا اپنا میرے آنگن میں

کیے ہوئے ہیں چراغاں تری عطا کے چراغ

 

خدا گواہ وہ گمراہ ہو نہیں سکتے

ہیں جن کے پیشِ نظر سنّت و وِلا کے چراغ

 

بھٹک رہا ہے جہاں گمرہی کی ظلمت میں

قدم قدم پہ اے ازہرؔ رکھو جلا کے چراغ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ