جو جا چکا وہ گیت ، وہی سُر تھا ، ساز تھا

ہم صرف نے نواز تھے بس اور کچھ نہ تھے

جو کھل گیا وہ تیرا بھرم تھا ستم ظریف

اپنے تو چند راز تھے بس اور کچھ نہ تھے

یہ محض اتفاق ہے کہ عمر کم پڑی

کارِ جنوں دراز تھے بس اور کچھ نہ تھے

تیری اناء نے روند کے کیا پا لیا بھلا

ہم پیکرِ نیاز تھے بس اور کچھ نہ تھے

وہ عہد جان سوز تھے وہ عمر جادوئی

تم صرف عہد ساز تھے بس اور کچھ نہ تھے

وجہ سخن نہیں کہ مجسم سخن تھا وہ

ہم تو سخن طراز تھے بس اور کچھ نہ تھے

دہلیز ہو گئی تھی نظر اور کچھ نہ تھا

در کے کواڑ باز تھے بس اور کچھ نہ تھے

تم نے جو ایک جنبشِ ابرو سے رد کیے

اپنے وہی جواز تھے بس اور کچھ نہ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]