جو جا چکا وہ گیت ، وہی سُر تھا ، ساز تھا
ہم صرف نے نواز تھے بس اور کچھ نہ تھے
جو کھل گیا وہ تیرا بھرم تھا ستم ظریف
اپنے تو چند راز تھے بس اور کچھ نہ تھے
یہ محض اتفاق ہے کہ عمر کم پڑی
کارِ جنوں دراز تھے بس اور کچھ نہ تھے
تیری اناء نے روند کے کیا پا لیا بھلا
ہم پیکرِ نیاز تھے بس اور کچھ نہ تھے
وہ عہد جان سوز تھے وہ عمر جادوئی
تم صرف عہد ساز تھے بس اور کچھ نہ تھے
وجہ سخن نہیں کہ مجسم سخن تھا وہ
ہم تو سخن طراز تھے بس اور کچھ نہ تھے
دہلیز ہو گئی تھی نظر اور کچھ نہ تھا
در کے کواڑ باز تھے بس اور کچھ نہ تھے
تم نے جو ایک جنبشِ ابرو سے رد کیے
اپنے وہی جواز تھے بس اور کچھ نہ تھے