سلسلہء چشتیہ کے شیخِ طریقت اور صوفیانہ رنگی میں ڈھلی سرائیکی شاعری کی اصل پہچان حضرت خواجہ غلام فرید بہاولپور کے قصبے چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے. نسب کے لحاظ سے آپ قریشی فاروقی ہیں.
والد خواجہ خدا بخش بھی اپنے زمانے کے صوفی بزرگ تھے.
آپ کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا مگر والدہ نے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ سے روحانی عقیدت کی بنا پر آپ کا نام غلام فرید رکھا اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے.
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر، اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشرف کمال کا یوم پیدائش
——
آٹھ برس کی عمر کو پہنچنے تک والدہ اور والد کے سایے سے محروم ہو چکے تھے . حفظِ قرآن کا مرحلہ والد کی زندگی ہی میں مکمل کیا.
عربی، فارسی اور علومِ دینیہ کی تعلیم نواب آف بہاولپور کے ہاں رہ کر مکمل کی جو آپ کے والد کے مریدِ خاص تھے.
اپنے بھائی خواجہ فخر جہاں کی بیعت کی اور ستائیس سال کی عمر میں خواجہ فخر جہاں کی وفات کے بعد سجادہ نشین مقرر ہوئے.
انتہا کے سخی تھے. ذاتی جاگیر کی آمدنی اور اپنے مرید نواب صادق محمد خان چہارم والیء ریاست کے بھاری نذرانے سب اللہ کی راہ
میں خرچ کر دیتے تھے. وسیع لنگر میں روزانہ سینکڑوں لوگ شریک ہوتے تھے. زندگی کے تیرہ سال روہی (چولستان) میں بسر کیے۔
بچپن سے آپ کی طبیعت مذہب، تصوف اور شعر و شاعری کی طرف مائل رہی.
آپ عقیدہء وحدت الوجود کے سرگرم حامی، شارح اور مقلد تھے.
اس عقیدے کی ترویج و تشریح کے لیے شاندار اشعار کہے جو "ہمہ اوست” کے نظریے پر قطعی دلیل ہیں.
آپ حالتِ وجد میں شعر کہتے تھے، ہر وقت فکرِ سخن میں مصروف نہیں رہتے تھے.
آپ نے کافی کی صنف کو وہ عروج عطا کیا کہ آج بھی سرائیکی کافی میں کوئی آپ کی گردِ پا کو بھی نہیں چھو سکا.
الہام کی حالت میں طویل کافیاں دس پندرہ منٹ میں کہہ دیتے تھے.
آپ کو موسیقی کی انتالیس راگنیوں پر عبور حاصل تھا اور آپ نے ان تمام راگنیوں پر کافیاں کہی ہیں.
سرائیکی شاعری میں آپ کا ” دیوان فرید” موجود ہے جس میں 271 کافیاں ہیں.آپ کا بہت سا کلام موسیقی میں ڈھل کر زبان زدِ عام ہو چکا ہے مثلاً
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
درداں دی ماری دلڑی علیل اے
آ چنوں رل یار، پیلوں پکیاں نی
عمراں لنگھیاں پباں بھار
کیا حال سناواں دل دا
——
یہ بھی پڑھیں : میلادِ آنحضور کی تقریبِ عید ہے
——
خواجہ غلام فرید نےاردو، فارسی، عربی، پوربی، اور سندھی زبان میں بھی شاعری کی مگر آپ کی اصل شناخت سرائیکی کافی ہی ہے
سرائیکی علاقے کے ریگزار "روہی” سے انہیں عشق تھا اور انہوں نے اپنی شاعری میں روہی کو محبت کے استعارے کے طور پر استعمال کر کے اسے لازوال بنا دیا
دلڑی لُٹی تیئں یار سجن
کدی موڑ مہاراں تے آ وطن
روہی دے کنڈڑے کالیاں
میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں
آساں راتاں ڈُکھاں وچ جالیاں
روہی بناؤئی چا وطن
(اے میرے یار، میرے ساجن! تم نے میرا دل لُوٹ لیا ہے. کبھی تو اپنے وطن لوٹ کر آ، روہی کے کنارے ہیں کالے، میرے دکھتے ہیں کانوں کے بالے، میں نے راتیں ہجر و فراق کے غم میں گزاری ہیں اور روہی کو وطن بنا لیا ہے)
خواجہ غلام فرید نے مجاز کے رنگ میں عشقِ حقیقی کی عکاسی کی ہے. وقتِ آخر کلمہء شہادت سے پہلے ان کی زبان پر اپنی نعت کا یہ آخری بند تھا
آ سونہڑاں ڈھولن یار سجن
آ سانول ہوت حجاز سجن
آ ڈیکھ فرید دا بیت حزن
ہم روز ازل دی تانگھ طلب
ترجمہ
آ پیارے ڈھولن یار ساجن
اے پیارے وطن حجاز والے
آ کر فرید کا اجڑا ہوا گھر دیکھ
روزِ ازل سے اسے تیری طلب ہے
خواجہ غلام فرید کا وصال چاچڑاں شریف میں ہوا مگر اپنے آبائی قصبے کوٹ مٹھن(ضلع راجن پور) میں دفن ہوئے، جہاں آپ کا مزار مرجعء خلائق ہے
نمونہء کلام
——۔۔
عشق لگا سر وِسریا
گھر وِسریا، در وِسریا
وِسریے ناز حسن دے مانڑیں
زیور تریور وِسریا
وِسریا: بھول گیا
مانڑ: غرور، ناز، بھروسہ
تریور: لباس، پہناوا
جب مجھے عشق ہوا تو اپنے آپ کی خبر نہ رہی، اپنا گھر، زر و مال سب بھول گیا. اپنے حسن کے ناز وغرور سب فراموش ہو گئے، گہنے زیور اور پہناوے تک کا خیال نہ رہا، عشق نے سب کچھ بھلا دیا
کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا
دل کا کیا حال سناؤں، کوئی رازدار ہی میسر نہیں ہے. اسی مضمون کو حالی نے اس طرح بیان کیا ہے
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
منہ دُھوڑ مٹی سر پایم
سارا ننگ نموج ونجایم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیم
ہتھوں الٹا عالم کِھلدا
دُھوڑ : خاک
پایم:ڈالنا
ننگ نموج: عزت و شرم
ونجایم: گم کرنا، ضائع کرنا
ویڑھے: صحن
آیم: آنا
ہتھوں: بلکہ
کِھلدا: ہنستا
عشق میں فراقِ یار کی کیفیت حد سے گزر کر جنون کی شکل اختیار کر گئی ہے اس لیے میں نے اپنے سر میں خاک ڈال لی ہے اور منہ پر مٹی مل لی ہے. میں عزت و شرم گنوا کر ہر چیز سے بیگانہ ہو گیا ہوں. کوئی میرے گھر میرا حالِ زار پوچھنے نہیں آتا بلکہ الٹا پوری دنیا مجھ پر ہنس رہی ہے، تمسخر اڑا رہی ہے
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
مصحفی غلام ہمدانی
——
یہ بھی پڑھیں : حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ (1173 تا 1266)
——۔۔
دل تانگھ تانگھے، اللہ جوڑ سانگے
سجناں دا ملنا مشکل مہانگے
تانگھ: انتظار
جوڑ سانگے: ملانا، ملاقات کروانا
مہانگے: مشکل ہے، مہنگا ہے
دل محبوب کے لیے سراپا انتظار ہے. اللہ ہی ملاقات کا کوئی سبب پیدا کر دے تو بات بنے ورنہ محبوب سے ملاقات کرنا نہایت کٹھن اور مشکل امر ہے
سَے سُول سہاں سِک سانگ سوا
سُکھ سڑ گئے خوشیاں راکھ تھیاں
درشن بن اکھیاں ترس گیاں
سَے : سینکڑوں، بہت سے
سُول: کانٹے، دکھ
سہاں: برداشت کروں، سہوں
سِک: اداسی
سانگ: ساتھ، ملاقات
تھیاں: ہو گئیں
محبوب سے مل کر ہجر کی اداسی دور کرنے کی آس پر سینکڑوں دکھ برداشت ہو رہے ہیں، جب سی محبوب بچھڑا ہے سارے سُکھ اور خوشیاں جل کر راکھ ہو گئ ہیں. میری آنکھیں محبوب کے دیدار کو ترس رہی ہیں
دوہڑا
——۔
میں سُنجی میری قسمت سُنجی
تُوں تارا ہیں فظر دا
تیکوں مانڑ حسن دا جیویں
میں کوں مانڑ صبر دا
ڈاڈھا عشق کولڑا ہوندا اے
جِویں ہوندا ڈُکھ قبر دا
آکھ غلام ڈھٹھی در تیرے
تُوں ہیں ہادی ایس بشر دا
سُنجی: ویران، برباد
فظر: فجر
مانڑ: غرور
جیویں: جیو، زندہ رہو
ڈاڈھا: بہت زیادہ
کولڑا: مشکل، ناقابلِ برداشت
جویں: جیسے
ڈکھ: دکھ
آکھ: کہو
ڈھٹھی: گر گئی
ہادی: ہدایت دینے والا، راستہ دکھانے والا
اس دوہڑے میں عشقِ حقیقی کا اظہار کرتے ہوئے رب کی ذات سے عرض کر رہے ہیں کہ اے میرے محبوب! میں تباہ و برباد ہوں اور میری قسمت بھی کھوٹی ہو چکی ہے. مجھے تجھ سے کیا نسبت کیونکہ تُو فجر کا تارا ہے، نور اور روشنی ہے. تمہیں اپنے حسن کا غرور ہے، تُو ہمیشہ جیے مگر مجھے بھی اپنے صبر اور برداشت پر بھروسہ ہے
والذین آمنوا اشد حبا للہ
اور ایمان والے تو اللہ کی محبت میں بہت سخت ہیں (البقرہ165)
مانا کہ عشق قبر کے عذاب سے بھی مشکل چیز ہے مگر غلام فرید یہ کہہ رہا ہے کہ میں تیرے در پر آن گرا ہوں کیونکہ جس نے تیرے سامنے سر جھکا دیا اس نے منزل کا راستہ پالیا، تو ہر انسان کو ہدایت دینے والا ہے. فرمانِ نبوی ہے
"اگر جھک جانے سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا” ( مسلم 784)