ہمارے آج کے سلسلے کی پہلی عظیم شخصیت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ہیں جنھیں ہماری پنجابی شاعری کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔آپ ملتان کے قصبے کھوتوال میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے جوانی تک شکر کے حوالے سے مختلف کرامات کے ظہور نے آپ کو” شکر گنج” یعنی شکر کا خزانہ کے لقب سے مشہور کر دیا۔خواجگانِ چشت میں سے حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نفس کشی اور مجاہدے کی کڑی منازل طے کرنے کے بعد تزکیہء نفس کے مقام تک پہنچے۔ سلسلہء چشتیہ کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ حضرت نظام الدین اولیاء رح کے مرشدِ کامل تھے۔
آپ نے اجودھن (پاکپتن) کو اپنا مرکزِ تبلیغ بنایا جو اس وقت ظلمتِ کفر کا گڑھ تھا۔بابا صاحب کی تعلیمات اور حسنِ اخلاق کی وجہ سے یہ علاقہ نورِ اسلام سے منور ہو گیا۔ پاکپتن میں آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔
بابا صاحب کو پنجابی کا سب سے پہلا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے مگر افسوس ان کی شاعری کا بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکا۔ صرف ایک سو بیس کے قریب وہ اشلوک ہم تک پہنچ سکے جو سکھوں کے پانچویں گرو نے از راہِ عقیدت اپنی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں شامل کر دئیے تھے۔گرنتھ صاحب میں بابا فرید رح کے کلام کی شمولیت بین المذہبی خیر سگالی کی تاریخ کا عدیم المثال واقعہ ہے۔
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رح کی شاعری میں فارسی، عربی اور سنسکرت کے بہت سے الفاظ ملتے ہیں۔دنیا کی بے ثباتی،ہجر و فراق کی کیفیت اور اخلاقی اقدار کی پہچان ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : حضرت خواجہ غلام فرید (1845 تا 1901)
——
اکثر اشلوک قرآنی آیات کی تفسیر یا احادیث کے تراجم پر مشتمل ہیں۔
منتخب اشلوک
——۔۔
فریدا کوٹھے، منڈپ، ماڑیاں، اُسارے بھی گئے
کُوڑا سودا کر گئے، گوریں آئے پئے
منڈپ۔۔۔۔۔حویلی
ماڑیاں۔۔۔۔۔۔محل، چوبارے
اُسارے۔۔۔۔۔۔۔معمار، تعمیرکرنےوالا
کُوڑا——جُھوٹا
گوریں۔۔۔۔۔۔۔۔قبریں
بابا فرید رح بے ثباتیِ دنیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں دنیا کے محل چوبارے اور ان کے بنانے والے سب تہِ خاک ہو گئے کیونکہ انہوں نے آخرت کر بدلے دنیا کا جھوٹا سودا کر لیا جو فریب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔فرمانِ الٰہی ہے
"اور دنیا کی حقیقت تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے
کاش یہ جانتے ہوتے (سورہ عنکبوت)
اپنا مال و منال اللہ کے لیے وقف کرنے کی بجائے حبِ مال و جاہ انسان کو آخرت کی دائمی زندگی سے غافل کئے رکھتی ہے اور موت کا نقارہ بجتے ہی خالی ہاتھ اس دنیا سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
اسی مضمون کو آتش نے کیا خوب بیان کیا ہے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
فریدا مَیں نوں مار کے مُنج کر، نِکی کر کے کُٹ
بھرے خزانے ربّ دے،جو بھاوے سو لُٹ
مَیں۔۔۔۔۔۔۔ انا، تکبّر، خود پسندی
مُنج۔۔۔۔۔۔ مُونج، ایک قسم کی گھاس جسے ڈنڈوں سے کُوٹ کُوٹ کر باریک ریشوں میں تبدیل کیا جاتا ہے پھر اس کو بل دے کر چارپائی کا بان تیار کیا جاتا ہے
نِکی۔۔۔۔۔چھوٹی
کُٹ۔۔۔۔۔کُوٹنا
بھاوے۔۔۔۔۔۔چاہے، پسند کرے
——
یہ بھی پڑھیں : میلادِ آنحضور کی تقریبِ عید ہے
——
اے فرید! تُو اپنے اندر کےتکبّر اور نفس کو مار کر نیست ونابود کر دے۔ جس طرح مونج کو کُوٹ کُوٹ کر باریک اور چھوٹا چھوٹا کر دیا جاتا ہے اسی طرح اس غرور اور تکبر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور عاجزی و انکساری اختیار کر۔ تکبر میں مبتلا شخص اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت و انعام کو اپنا ذاتی کمال اور وصف سمجھتا ہے۔ قرآن کریم میں متواضع لوگوں کی خوبی بیان فرمائی گئی ہے۔
"جو لوگ تکبّر نہیں کرتے انہیں قرآن کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں "( سورہ السجدہ آیت15)
اسی طرح غرور و تکبّر کی نفی کرتے ہوئے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"اگر جھک جانے سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا”(مسلم حدیث 784)
جب انسان اللہ کا عاجز بندہ بن جاتا ہے، اپنی” مَیں” کا بُت پاش پاش کر دیتا ہے تو اس کے لیے اپنے ربّ کے ہاں عطا ہی عطا ہے،وہ اپنی رحمتوں کے خزانوں کا منہ اس کے لیے کھول دیتا ہے کہ جو چاہے لُوٹ لے جائے، جس سے چاہے اپنا دامنِ مراد بھر لے، آخرت کے تمام انعامات اسی کے لیے ہیں۔
کاگا چُونڈ نہ پنجرا، بِسے توں اُڈ جا
جِت تَن میرا شوہ وَسے،ماس نہ تِدوں کھا
کاگا۔۔۔۔۔۔۔کوّا
چُونڈ۔۔۔۔۔۔ نوچنا
پنجرا۔۔۔۔جسم کا ڈھانچہ
بِسے۔۔۔۔۔۔۔۔جسم
جِت۔۔۔۔۔۔۔جس
شوہ۔۔۔۔۔۔محبوب،ذاتِ باری تعالیٰ
وَسے۔۔۔۔۔۔ آباد ہو
ماس۔۔۔۔۔۔ گوشت
تدوں۔۔۔۔۔ ۔تم سے
اے کوے تو میرے جسم سے اڑ جا، میری ہڈیوں کو مت نوچ، یہاں تجھے کھانے کے لیے گوشت نہیں ملے گا کیونکہ یہ مقام میرے رب کا ہے، اس جگہ میرا محبوب رہتا ہے۔
جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جائے اور وہ باقی تمام محبتوں پر غالب آ جائے اسے عشق کہتے ہیں۔عشقِ حقیقی ماسوا اللہ کے باقی سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پیر سید نصیر الدین نصیر چشتی
——
عشق کا خمیر اللہ پاک نے انسان کی روح میں شامل کیا ہے۔ اللہ پاک نے اسی شدید محبت کو مومنین کی صفت قرار دیا ہے۔
وَالَّذِینَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ
اور جو ایمان لائے، اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔
(البقرہ 165)
جس تن میں محبوب کا ڈیرا ہو، جس میں محبوب بستا ہو اس کو دنیاوی آزار کیا تکلیف دیں گے؟عشق ہر احساس پر غالب آ
جاتا ہے۔
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ "انا البحر”
ہم اس کے ہیں،ہمارا پوچھنا کیا
غالب