حضور کوئی تدارک کہ دل نُمو پائیں
ہم ایک گوشۂ سرسبز چار سُو پائیں
کمال ہو کہ سحر دَم جُونہی چراغ بُجھے
تو خود کو روضۂ اقدس کے رُو بہ رُو پائیں
کٹے تو صرف کٹے آپ کے لئے گردن
ہم اپنے دل میں شہادت کی آرزُو پائیں
ترے ہی فیض سے سَر کر لیں کوہِ ہست و بود
جہاں بھی جائیں وہاں خود کو سُرخ رُو پائیں
ہمارا رشتہ جُڑا ہو چراغِ نور کے ساتھ
ہم اپنی روح میں تخلیقی جستجُو پائیں
یہ ایک دُھن ہمیں رقصاں کئے ہوئے ہے کہ بس
ترا ہی جام ملے تیرا ہی سُبو پائیں
دُوبارہ جی اُٹھیں تاثیرِ اسمِ احمد سے
ہم اپنی مُردہ رگوں میں نیا لہُو پائیں