خوشبوئے گُل نظر پڑے ، رقص ِ صبا دکھائی دے
دیکھا توہے کسی طرف ، دیکھیے کیا دکھائی دے
تب مَیں کہوں کہ آنکھ نے دید کا حق ادا کیا
جب وہ جمال کم نُما دیکھے بِنا دکھائی دے
دیکھے ہووٗں کو بار بار دیکھ کے تھک گیا ہوں میں
اب نہ مجھے کہیں کوئی دیکھا ہوا دکھائی دے
ایک سوال ، اِک جواب ، پھر نہ رہا کوئی حجاب
اُس نے کہا دکھائی دوں ؟ میں نے کہا دکھائی دے
کیا یہ وفورِ عشق ہے یا یہ فریب ِ عشق ہے
دیکھوں میں جَب بھی آئنہ ، چہرہ ترا دکھائی دے
چھوڑ یہ پردہ داریاں ، آنکھ مچولی ترک کر
اے مرے یار !اب مجھے دیکھ لے یا دکھائی دے
آیت حُسن کی قسم ، کفر نہیں یہ عشق ہے
پیکر خاک میں اگر نور ِ خدا دکھائی دے
لگتے ہیں اس کے خدو خال ، تازہ انوکھے لازوال
جتنا پُرانا ہے وہ شخص ، اُتنا نیا دکھائی دے
حسن کے در سے دم بدم ، بھیک ملے بصد کرم
فارس کم نگاہ کو روپ ترا دکھائی دے