اردوئے معلیٰ

پھسلنے لگ گئے ہیں ریت کے ذرات مٹھی سے

وہ ایسے عشقِ لا حاصل پہ قانع کب تلک رہتا

عطائےِ دست گیری ، دست کَش ہونے کے عالم تک

بس اِک احساس مانع تھا سو مانع کب تلک رہتا

 

بھلا کب تک نظر محدود رہتی ایک منظر میں

شکستِ خواب کی تکلیف کب تک جھیلتی آنکھیں

اُدھر منظر نگاری ، اور وہ بھی ایک شاعر کی

فسردہ ہو کے ہی رہتیں وہ ہنستی کھیلتی آنکھیں

 

شراکت رُوح کی تھی ، وہ کوئی پابند تھوڑی تھا

کہ میرے ساتھ ہی رہتا وہ دل برداشتہ غم میں

کسوٹی کرب کب ہے عشق کا سونا پرکھنے کی

وہ آخر مبتلاء کیوں ہو مرے خود ساختہ غم میں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔