دشمنِ جاں بھی ترے مدح سرا ہو جائیں
دیکھ کر حُسن فدا ارض و سما ہو جائیں
سادگی وہ کہ دو عالم میں نہیں مِثل کوئی
رُعب سے کُفر کے اوسان خطا ہو جائیں
جس درِ پاک پہ کرتے ہیں ملائک بھی سلام
ہم بھی اُس در پہ چلو محوِ ثنا ہو جائیں
ہم کو آواز نہ دے شوکتِ دُنیا سُن لے
اُن کے منگتے ہیں ترے کیسے بھلا ہو جائیں
حاضرِ در ہوں اِس اُمید پہ محبوبِ خدا
میری جتنی بھی قضائیں ہیں ادا ہو جائیں
ظلمتِ دہر میں بے نور ہوئے قلب و نظر
سیرتِ پاک کے انوار عطا ہو جائیں
جن کے کاسے پہ تری نظرِ کرم ہو جائے
پھر وہ خود منبعِ الطاف و غنا ہو جائیں
صدقہ اصحابِؓ نبی پاک کے جذبوں کا شکیلؔ
کاش ہم اہلِ خرد اہلِ وفا ہو جائیں