دل میں حبیب پاک کا جس کے خیال ہو
ممکن نہیں ہے اس کو بھی رنج و ملال ہو
قربت میں آ کے آپ کی بے کس سا اک غلام
خلقت میں وہ غلام بلالِ کمال ہو
لب پر درودِ پاک اور چشم اشک بار
کیوں لطفِ حاضری نہ بھلا بے مثال ہو
عصیاں کا بوجھ لایا ہوں محبوب کبریا
جس در پہ ہر سوالی کا پورا سوال ہو
ہے التجا بس اتنی مری ربِّ کائنات
مدحت عطا ہو ایسی کہ جو لازوال ہو
لفظوں کا انتخاب ہو کچھ ایسا بے مثال
شایانِ شانِ مدحِ شہِ خوش خصال ہو
تڑپے جو دل بھی وارثیؔ یاد حبیب میں
کیوں کر نہ دو جہان میں وہ مالا مال ہو