اردوئے معلیٰ

آج معروف نقاد، شاعر اور ڈرامہ نگار شمیم حنفی کا یومِ وفات ہے

شمیم حنفی(پیدائش: 17 مئی 1938ء – وفات: 6 مئی 2021ء)
——
شمیم حنفی 17 مئی 1938ء کو سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1967ء اور 1972 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے ایک پی ایچ ڈی اور 1976ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ حاصل کیا۔
حنفی کو 2010 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) عدالت کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔ انھوں نے اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) میں تعلیم دی اور پروفیسر ایمریٹس کی صلاحیت میں جے ایم آئی سے وابستہ رہے۔ جے ایم آئی میں انھوں نے انسانیت اور زبان کی فیکلٹی کے ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، جہاں سے انھوں نے 2012 میں استعفیٰ دیا تھا۔ حنفی نے جشن ادب اور ریختہ کے سرپرست کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔
حنفی کو 2015 میں بھارتیہ جننپتھ کے ذریعہ پہلا جنن گریما مند النکرن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ انہوں نے قطر میں مقیم ایک ادبی تنظیم "مجلسِ فروغِ اردو ادب” سے جنوری 2021 میں "اردو ادب کے فروغ کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ” (International award for promotion of Urdu literature) حاصل کیا۔[2] انھیں "مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ” ، "پرویز شاہدی ایوارڈ” ، "دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ” اور "غالب ایوارڈ” بھی مل چکا ہے۔ 20 ستمبر 2015 کو ، انہیں ہندوستان گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔
شمیم حنفی 6 مئی 2021 کو نئی دہلی میں کوویڈ ۔ 19 کے سبب؛ دنیا سے چل بسے۔ آرٹس کونسل ، کراچی کے صدر احمد شاہ نے شمیم حنفی کی موت پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ "شمیم اپنے ادبی کاموں کی وجہ سے ہم میں زندہ رہیں گے”.
——
ادبی خدمات
——
شمیم نے اپنا پہلا ڈراما "آخری کش” لکھا، جسے 1965ء میں ان کے دوست امین حنفی نے تیار کیا تھا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رسالہ "جامعہ” کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ایک ڈراما نگار کی حیثیت سے انھوں نے مٹی کا بلاوا ، بازار میں نیند اور مجھے گھر یاد آتا ہے سمیت کئی ڈرامے لکھے ہیں۔ جون 2015 میں ان کا شعری مجموعہ آخری پہر کی دستک ہندی کے شاعر اشوک واجپئی نے جاری کیا۔ 2012 میں آرٹس کونسل ، کراچی کے زیر اہتمام ، حنفی نے اردو کانفرنس میں ریمارکس دیے کہ ، "کتابیں ہماری یکجہتی کا احترام کرتی ہیں” اور "انفارمیشن ٹکنالوجی کی آمد نے کتابوں اور مشینوں کے مابین تنازعات کو جنم دیا ہے۔ ” وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ تحریک ، تاریخ ، روایت کے بھی مرتب ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : مظفر حنفی کا یوم پیدائش
——
ان کی کتابوں میں شامل ہیں:
جدیدیت کی فلسفیانہ اساس
نئی شعری روایت
تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ
اردو کلچر اور تقسیم کی روایت
خیال کی مسافت
قاری سے مکالمہ
منٹو: حقیقت سے افسانے تک
غالب کی تخلیقی حسیت
آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ
غزل کا نیا منظر نامہ
——
پروفیسر شمیم حنفی: ایک نابغہ فن نہ رہا از آفتاب احمد منیری
——
اس دور پر آشوب میں جب ایک ایک کر کے دنیائے علم و ادب علمی شخصیات سے خالی ہوتی جا رہی ہے، پروفیسر شمیم حنفی کا رخصت ہو جانا محفل ادب کو ویران کر گیا ہے۔ جدید ادبی تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے شمیم حنفی نے اردو ڈرامہ اور شاعری کی دنیا میں بھی اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مٹی کا بلاوا، بازار میں نیند اور مجھے گھر یاد آتا ہے جیسے یادگار ڈرامہ اور آخری پہر کی دستک جیسا نایاب شعری مجموعہ ہمیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
ترقی پسند تحریک، جدیدیت، فکر اقبال اور معاصر ادبی رویے پر کھل کر بات کرنے میں شمیم حنفی نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو تدریس سے وابستہ رہ کر موصوف نے ہزاروں تشنگان ادب کو مئے نوش کے آداب سکھائے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی آپ کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پروفیسر ایمریٹس کی حیثیت سے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منسلک رہتے ہوئے شمیم حنفی نے دہلی اور بیرون دہلی سینکڑوں ادبی اجتماعات میں کلیدی خطبات پیش کیے۔
بحیثیت طالب علم مجھے بھی ان کے پرمغز علمی خطبات سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ ہم نے اردو کے بہت سے ادیبوں کو برسر اسٹیج بولتے سنا لیکن چند ناموں کو چھوڑ کر کسی کو بہتریب خطیب نہیں پایا۔ لیکن پروفیسر شمیم حنفی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ادب کے اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود ان کی گفتگو کا انداز نہایت سادہ اور دلچسپ ہوتا۔
عام طور پر کسی ادبی نظریہ سے منسلک افراد اپنے مخصوص نظریات کے حوالے سے حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں اور افکار و نظریات کی حمایت میں بات کرتے ہوئے لوگوں کی کردارکشی بھی کر جاتے ہیں۔ لیکن شمیم حنفی اس معاملے میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے دوران گفتگو کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا۔
——
یہ بھی پڑھیں : فرمان فتح پوری کا یوم وفات
——
مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ اکثر فیض شناسی کے جلسوں میں آپ اپنی فکر انگیز گفتگو سے سامعین کو مسحور کر دیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ’غالب انسٹی ٹیوٹ‘ کے ایک پروگرام میں موصوف فیض کی انقلابی شاعری پر اظہار خیال فرما رہے تھے۔ اس درمیان علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا ذکر نکل آیا۔ آپ نے برجستہ طور پر فرمایا ’’فیض احمد فیض اپنی تمام تر شاعرانہ عظمتوں کے باوجود علامہ اقبال کی شاعرانہ رفعتوں کے آس پاس بھی نہیں پہنچتے۔‘‘
اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمیم حنفی مشرقی شعری روایات اور اردو کے عظیم شاعروں کا کس قدر احترام کرتے تھے۔ آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بحیثیت استاذ ایک طویل عرصہ گزارا۔ اس اعتبار سے انھیں استاذالاساتذہ بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ شعبہ اردو کے بیشتر اساتذہ نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے۔ جامعہ کی تاریخ اور اس کے ارتقاء سے متعلق ایک اہم ترین پروجیکٹ پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں منظور ہوا۔ اس اہم ترین پروجیکٹ کو ترتیب دینے کی ذمہ داری بھی شمیم حنفی صاحب کو تفویض کی گئی۔ آپ نے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ تحریک، تاریخ، روایت کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک تاریخی دستاویز کی تکمیل کر کے ایک عظیم ادارہ کی تاریخ سے نسل نو کو متعارف کرانے جیسا مہتم بالشان کارنامہ انجام دیا۔
پروفیسر شمیم حنفی کا شمار اردو کے ممتاز ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ادبی تنقید کے موضوع پر متعدد مقالات علمی تصنیف کیے۔ ان کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجزیہ، اردو ثقافت اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت اور قاری سے مکالمہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
بحیثیت ادبی ناقد مشرقی شعریات پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ خصوصیت کے ساتھ شاعر مشرق اقبالؔ کے فکری مباحث کا مطالعہ انھوں نے بہت باریک بینی کے ساتھ کیا تھا۔ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے معترف تھے۔ اس ضمن میں ان کی کتاب ’اقبال اور عصر حاضر کا خزانہ‘ سے یہ اقتباس نشان راہ کی حیثیت رکھتا ہے:
’’اقبال ہماری فکری روایت کے سب سے بڑے مفسر تھے۔ اپنی آگہی اور وسعت فکر کے لحاظ سے اقبال کا کوئی پیش رو اور کوئی ہم عصر ان کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔ اردو کی فلسفیانہ روایت اور اجتماعی فکر کا نقطہ عروج ہمیں اقبال کی شاعری اور نثر میں نظر آتا ہے۔‘‘
اردو تنقید کے ساتھ ساتھ شمیم حنفی شاعری اور فنون لطیفہ سے بھی غیر معمولی وابستگی رکھتے تھے۔ دنیا کی بے ثباتی کلاسیکی شاعری کا اہم ترین موضوع رہا ہے۔ اس حوالے سے بھی شمیم حنفی بہت سنجیدگی کے ساتھ پرورش لوح و قلم کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے نظم بعنوان ’مرحوم والدین کے نام‘ لکھی تھی۔ نظم کے اشعار یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا مطالعہ کائنات کتنا وسیع تھا۔ نظم کے ان اشعار کے ساتھ میں شمیم حنفی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں:
——
یہ بھی پڑھیں : مظفر حنفی کا یوم وفات
——
ایک دن مسمار ہو جائیں گی آوازیں تمام
ایک دن ہر بات احساس زیاں تک جائے گی
میں بھی کھو جاؤں گا آخر آنسوؤں کے سیل میں
یہ اندھیری شام جب کوہ گراں تک جائے گی
اے خدا! اس مشعل گم گشتہ کو محفوظ رکھ
روشنی اس کی مرے نام و نشاں تک جائے گی
——
منتخب کلام
——
روشن ہے ابھی روح میں اک اسم محمد
کیا کیا نہ کیے ہوش نے انکار عزیزو
——
فنا ہوئے تو کچھ ایسے کہ جیسے تھے ہی نہیں
ہمارے بعد ہمارے نشاں ملے ہی نہیں
——
اے خدا اس مشعل گم گشتہ کو محفوظ رکھ
روشنی اس کی مرے نام و نشاں تک جائے گی
——
اندھیرے دوڑ کے آئے پناہ کی خاطر
ہمارے گھر کا دریچہ اگر کھلا دیکھا
——
اے مطلعِ ملال ہمارے لیے بھی کچھ
تاروں بھری یہ رات خزانہ اسی کا ہے
——
زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں
——
لبھاتی تھی مرے دل کو بہت افسردگی تیری
تری افسردگی بھی میرے پیکر میں چلی آئی
——
میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے
——
سورج دھیرے دھیرے پگھلا پھر تاروں میں ڈھلنے لگا
میرے اندر کا سناٹا جاگ کے آنکھیں ملنے لگا
شام نے برف پہن رکھی تھی روشنیاں بھی ٹھنڈی تھیں
میں اس ٹھنڈک سے گھبرا کر اپنی آگ میں جلنے لگا
سارا موسم بدل چکا تھا پھول بھی تھے اور آگ بھی تھی
رات نے جب یہ سوانگ رچایا چاند بھی روپ بدلنے لگا
آوازوں کے انگ انگ میں درد کے نشتر چبھنے لگے
پیاسی آنکھوں کے صحرا میں ریت کا جھکڑ چلنے لگا
نیلے سرخ سفید سنہرے ایک ایک کرکے ڈوب گئے
سمتوں کی ہر پگڈنڈی پر کالا رنگ پگھلنے لگا
——
شام آئی صحن جاں میں خوف کا بستر لگا
مجھ کو اپنی روح کی ویرانیوں سے ڈر لگا
ایک لمحے کی شرارت تھی کہ ہر لمحہ مجھے
آپ اپنی سمت سے آتا ہوا پتھر لگا
دھند سی پھیلی ہوئی تھی آسماں پر دور تک
موجۂ ریگ رواں مجھ کو ترا پیکر لگا
خانۂ دل کو سجانا بھی ہے اک شوق فضول
کون جھانکے گا یہاں یہ آئینے باہر لگا
جاگنے والوں کی بستی سے گزر جاتے ہیں خواب
بھول تھی کس کی مگر الزام راتوں پر لگا
خامشی کی چار دیواری بھی شاید گر چکی
آج جانے کیا ہوا وہ شخص بھی بے گھر لگا
——
کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں
زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں
سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں
پتا آنکھیں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں
ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں
کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں
یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں
——
مستقبل
——
مستقبل اک بچہ ہے
حال کی گود تک آتے آتے
رخساروں پر اس کے سبزے کی چادر چھا جاتی ہے
پھر کروٹ لیتی ہے خزاں کی زہر میں ڈوبی کالی کالی تیز نگاہ
رخ پہ طمانچے لگتے ہیں
درد کے صحرا میں اک لڑکا جو کل تک اک بچہ تھا
سہما سہما رک رک کر آگے بڑھتا جاتا ہے
اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے
دل کے دروازوں پر آ کر خواب کی پریاں ہنستی ہیں اور یہ لڑکا
ان پریوں کے لالچ میں ہنس ہنس کر آگے بڑھتا ہے
وقت کے رتھ پر دونوں یوں ہی آگے پیچھے بھاگتے ہیں
آگے پیچھے
جانے کب تک
اور آخر وہ منزل بھی آ جاتی ہے
جب یہ الھڑ سا لڑکا جو کل تک اک معصوم سا ننھا بچہ تھا
شانے پر خوابوں کی لاش اٹھائے
دل میں اپنے زخم تمنا کا نشتر اور درد چھپائے
سینے میں آتی جاتی سانسوں کا طوفان لئے
آنکھوں میں اک پیاس لیے
تھکا تھکا سا
گر پڑتا ہے سستانے کو
گود میں اپنے ماضی کی
اور جب اٹھتا ہے تو دنیا اس کو بوڑھا کہتی ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ