دل کی خواب بستی میں جب بھی آنکھ بھر دیکھا
آپ کی گلی دیکھی، اور مستقر دیکھا
ایک ہی مسافت تھی، ایک ہی رہی منزل
نقشِ پائے سرور کو، حاصلِ سفر دیکھا
گرچہ دل نے جلدی کی عرضِ حرفِ حاجت کی
آپ کی عطا کا رنگ پھر بھی پیشتر دیکھا
دیر تک دُعاؤں کا بے ثمر رہا منظر
پڑھ لیا درود آخر اور پھر اثر دیکھا
رُک گئیں مری آنکھیں آپ ہی کے خوابوں پر
بن گیا وہی منظر آپ نے جدھر دیکھا
پھر تری عطاؤں کے، سلسلے ہیں طُولانی
پھر سے اپنے دامن کو ہم نے مختصر دیکھا
اور کچھ نہیں تشبیہ نقشِ نعلِ طلعت کی
جیسے چاند، سُورج کو خُوب جلوہ گر دیکھا
آپ کی عطا پر ہے، آپ کے کرم پر ہے
ویسے تو خطاؤں سے جسم تر بتر دیکھا
حرف کے کرشمے سے کب ہوئی تری مدحت
عجز کی گدائی کو صرف کار گر دیکھا
سب کے سب گدا گر تھے حرف کی عدالت میں
اِک ترا ثنا گو تھا جس کو معتبر دیکھا
دل تو شہرِ جاناں کا ملتجی رہا مقصود
جسم ایک ہر جائی، جس کو در بدر دیکھا