دیوار بھی اچھی لگے ، در اچھا لگے ہے

طیبہ میں جدھر دیکھو ادھر اچھا لگے ہے

لا اقسم فرما کے خدا نے یہ بتایا

محبوب کے رہنے سے نگر اچھا لگے ہے

انوار کی بارش ہے فرشتوں کا ہے میلا

سرکار بھی موجود ہیں گھر اچھا لگے ہے

پلکوں کے جھپکتے ہی پہونچ جاتا ہوں طیبہ

مجھ کو مرا اندازِ سفر اچھا لگے ہے

دندانِ شہنشاہ دوعالم کے مقابل

ہیرے نہ جواہر نہ گہر اچھا لگے ہے

پتھر کا جگر موم ہو قدموں کے اثر سے

پتھر کو بھی قدموں کا اثر اچھا لگے ہے

اچھوں پہ تو ہر ایک نظر ہوتی ہے لیکن

مجرم پہ جو فرمائے نظر ، اچھا لگے ہے

سرکار کے جلوے ہیں نگاہوں میں سمائے

سورج نہ ستارے نہ قمر اچھا لگے ہے

سن کر مری نعتوں کو ملک وجد میں بولے

اے نورؔ ترا رنگ ہنر اچھا لگے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]