اردوئے معلیٰ

دیوار بھی اچھی لگے ، در اچھا لگے ہے

طیبہ میں جدھر دیکھو ادھر اچھا لگے ہے

 

لا اقسم فرما کے خدا نے یہ بتایا

محبوب کے رہنے سے نگر اچھا لگے ہے

 

انوار کی بارش ہے فرشتوں کا ہے میلا

سرکار بھی موجود ہیں گھر اچھا لگے ہے

 

پلکوں کے جھپکتے ہی پہونچ جاتا ہوں طیبہ

مجھ کو مرا اندازِ سفر اچھا لگے ہے

 

دندانِ شہنشاہ دوعالم کے مقابل

ہیرے نہ جواہر نہ گہر اچھا لگے ہے

 

پتھر کا جگر موم ہو قدموں کے اثر سے

پتھر کو بھی قدموں کا اثر اچھا لگے ہے

 

اچھوں پہ تو ہر ایک نظر ہوتی ہے لیکن

مجرم پہ جو فرمائے نظر ، اچھا لگے ہے

 

سرکار کے جلوے ہیں نگاہوں میں سمائے

سورج نہ ستارے نہ قمر اچھا لگے ہے

 

سن کر مری نعتوں کو ملک وجد میں بولے

اے نورؔ ترا رنگ ہنر اچھا لگے ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ