حشر کی دھوپ سے بچنے کی یہ صورت ہو گی
سر پہ عاصی کے تنی چادر رحمت ہو گی
جس کے دل میں مرے سرکار کی الفت ہو گی
منتظر اس کی دل و جان سے جنت ہو گی
رشک آئے گا دو عالم کو مری قسمت پر
شہر طیبہ کی میسر جو سکونت ہو گی
آپ کے چہرے سے قدرت ہے نمایاں رب کی
آپ کو دیکھنا پھر کیوں نہ عبادت ہو گی
خواہش دہر! عبث دیکھ رہی ہے تو ادھر
یہ مرا دل ہے ، یہاں ان کی حکومت ہو گی
گمرہی تیرے تعاقب میں نہیں جا سکتی
تیرے ہمراہ جو سرکار کی سیرت ہو گی
للہ الحمد پھر آنے لگا طیبہ کا خیال
پھر مرے دل میں بپا محفل مدحت ہو گی
میرے آقا ہی رہیں میری نظر کا مرکز
روز محشر بھی مرے دل میں یہ حسرت ہو گی
کُھل نہیں سکتا کبھی نورؔ کا در اُس کے لئے
جس کے دل میں مرے آقا سے عداوت ہو گی