ذکرِ سرور سے عجب دھوم مچا دی جائے
محفلِ نعت پھر اِک بار سجا دی جائے
تذکرہ سیّدِ ابرار کا اس طور سے ہو
قلب اور ذہن سے ہر فکر بھلا دی جائے
ایک لمحے میں شفا پائے گناہوں سے مریض
خاک طیبہ کی اسے لا کے سنگھا دی جائے
نعت کہنے کے لیے تنگ قوافی ہیں بہت
اِک ردیف ایسی کوئی اور بنا دی جائے
جس میں رہتے ہیں مرے آقا کے گستاخ سبھی
اینٹ سے اینٹ اُس ایواں کی بجا دی جائے
جتنے بیمار ہیں کرتے ہیں دُعا مولا سے
ہم کو آقا کے وسیلے سے شفا دی جائے
حشر تک کفر کے ایوان منور ہوں گے
ذکرِ سرکار کی اِک شمع جلا دی جائے
ہر برس حاضری طیبہ کی مقدر ہے ترا
کاش ہر سال خبر یہ ہی سنا دی جائے
عرض کرتا ہے یہی آپ کا خاکیؔ آقا
حاضری طیبہ کی دوبارہ کرا دی جائے